سیول: ( پبلک نیوز) امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ ہائپر سونک ہتھیاروں کے پیچھے چین کی دوڑ خطے میں کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔ امریکا چین کی طرف سے آنے والے کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار رہے گا۔ آسٹن جنوبی کوریا کے ساتھ سیکورٹی پر سالانہ بحث میں حصہ لینے کے لیے سیول پہنچے تھے۔ اس دوران دونوں ممالک نے جنوبی کوریا کے دو ہمسایہ ممالک چین اور شمالی کوریا کی وجہ سے پیدا ہونے والے خدشات پر تبادلہ خیال کیا۔ چین اور شمالی کوریا دونوں ہی زیادہ طاقتور ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا بارہا میزائل تجربات کر چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی فوج ماضی میں دو بار ایسے راکٹ داغ چکی ہے جو پوری زمین کا چکر لگانے کے بعد اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اس ٹیسٹ سے پریشان ہے۔ https://twitter.com/DeptofDefense/status/1466262253817188352?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1466262253817188352%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Finternational-59508394 رواں سال جولائی میں چین نے ایک تجربہ کیا تھا جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ایک ہائپر سونک میزائل تھا۔ اگرچہ چین نے کہا کہ یہ پرانے خلائی جہاز کے دوبارہ استعمال سے متعلق ایک ٹیسٹ تھا۔ جولائی میں چین کے ٹیسٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے لائیڈ آسٹن نے کہا تھا کہ "ہمیں اس فوجی صلاحیت پر تشویش ہے جو چین کر رہا ہے، کیونکہ اس سے خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔" انہوں نے فوجی صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کی جانب سے نئے ہتھیار بنانے کی کوششوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اور اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے اپنی صلاحیت میں اضافہ اور چین کی جانب سے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں گے۔ گذشتہ ماہ امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے کہا تھا کہ امریکا ہائپرسونک ہتھیار بنانے پر بھی کام کر رہا ہے۔ انہوں نے ان ہتھیاروں کے بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ہتھیاروں کی رفتار، ان کی تیز رفتاری، ہوا میں ان کی نقل وحرکت کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت، انہیں میزائل کا پتا لگانے کے نظام سے بچنے میں مدد دے گی۔ https://twitter.com/mod_russia/status/1465280157028077571?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1465280157028077571%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Finternational-59508394 انہوں نے کہا کہ چین نے جس طرح کے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا ہے، امریکا اب تک اس قسم کا تجربہ نہیں کر سکا۔ ادھر پیر کو روس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی بحریہ نے ایک ہائپر سونک کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس تجربے کے حوالے سے روس کا کہنا تھا کہ یہ زرکون کروز میزائل تھا جس نے مشق کے دوران 400 کلومیٹر دور اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے بیان میں کہا کہ زرکون سیریز کے میزائل آواز کی رفتار سے 9 گنا اور ایک ہزار کلومیٹر دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ روسی فوج جلد ہی اس سیریز کے میزائلوں کو فوج میں شامل کرنے جا رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا کو اس بات کی فکر ہے کہ وہ اسلحے کی دوڑ میں روس اور چین سے پیچھے نہ رہ جائے۔ اس سال ستمبر میں امریکا نے ہائپرسونک میزائل کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ہائپرسونک میزائل میک 5 یا اس سے زیادہ (آواز کی رفتار سے 5 گنا یا زیادہ رفتار) پر جا سکتے ہیں اور اپنی رفتار کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے میزائل ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دے کر اہداف کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائپر سونک میزائل ممکنہ کشیدگی کی صورت حال یا ہتھیاروں کی جاری دوڑ کو روکنے میں کچھ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے حوالے سے لائیڈ آسٹن نے کہا کہ انہوں نے جنوبی کوریا کے وزیر دفاع سوووک سے اس بارے میں تفصیلی بات چیت کی اور دو طرفہ شراکت داری پر بھی بات کی۔ شمالی کوریا کی میزائل تیار کرنے کی کوششیں علاقائی سلامتی میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکا اور جنوبی کوریا دونوں شمالی کوریا کے معاملے میں سفارتی بات چیت کا راستہ اپنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ خیال رہے کہ شدید اقتصادی بحران اور کورونا وبا کے باعث پیدا ہونے والے منفی حالات کے باوجود شمالی کوریا مذاکرات شروع کرنے کی امریکی پیشکش کو مسترد کرتا رہا ہے۔ شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ امریکا پہلے شمالی کوریا کے بارے میں اپنا رویہ بدلے اور اس پر عائد پابندیاں اٹھائے۔ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا پر عائد بین الاقوامی پابندیاں اس وقت تک نہیں اٹھائی جائیں گی جب تک وہ جوہری تخفیف کے لیے موثر اقدامات نہیں کرتا۔ اس ہفتے کے شروع میں پینٹاگون نے ایک عالمی جائزہ رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکا کو چینی فوج کے جارحانہ رویہ اور شمالی کوریا کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ شراکت داری بڑھانی چاہیے۔