ویب ڈیسک: (علی زیدی) ترکیہ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں حزب اختلاف کے جنگجوؤں کی تیزی سے ہونے والی حالیہ پیش قدمی ظاہر کرتی ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کو اپنے عوام کے ساتھ مفاہمت اور حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت کرنا چاہیے۔
انقرہ میں اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں حقان فیدان نے کہا کہ شام کی خانہ جنگی میں مخالف فریقوں کی حمایت کرنے والے ترکیہ اور ایران نے باغیوں کی جانب سے بجلی کی سی تیز کارروائی شروع کرنے اور تقریباً پورے حلب شہر پرقبضہ کرنے کے بعد امن بحال کرنے کے لیے روس کے ساتھ مل کر سفارتی کوششیں دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ترکیہ کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی جانب سے تیزی سے پیش قدمی اسد کے لیےبہت بڑی شرمندگی کا باعث بنی ہے۔ یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسد کے اتحادی، ایران، اس کے حمایت یافتہ گروپ اور روس، سب اپنے اپنے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔
ترک وزیر خارجہ کے ریمارکس ان مایوس کن حالات میں سامنے آئے ہیں جب ترکیہ کی اسد کے ساتھ مفاہمت کی حالیہ کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ تبصرے ظاہر کرتے ہیں کہ حزب اختلاف کے جنگجوؤں کی جانب سے شام کی حکومت کو جھٹکا دینے کا مقصد شامی رہنما پر سیاسی مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ترکیہ شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس کی جنوبی سرحد پر کرد عسکریت پسندوں سے وابستہ گروپوں کی طرف سے سیکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے اور 30 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کی محفوظ وطن واپسی کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے۔
ترکیہ افواج کا شام سے انخلا تعلقات معمول پر لانے کی شرط، بشارالاسد
دوسری طرف اسد نے اصرار کیا ہے کہ شمالی شام سے ترکیہ کی افواج کا انخلاء دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی شرط ہے۔
عراق میں وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل مقداد مری نے کہا ہے کہ شام کے ساتھ اپنی وسیع سرحد کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی فورسز کو بڑی تعداد میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
ترکیہ، روس ، ایران سہ فریقی اجلاس طلب کرنےکا فیصلہ:
وزیر خارجہ فیدان نے شام کی علاقائی سالمیت کے لیے ترکیہ کی حمایت کا اعادہ کیا۔
ساتھ ہی انہوں نے عندیہ دیا کہ ترکیہ شامی کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف مداخلت کرنے سے نہیں ہچکچائے گا اگر وہ گروہ "عدم استحکام کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہیں"۔
دونوں وزرائے خارجہ فیدان اور عراقچی نے اس موقع پر کہا کہ ترکیہ، ایران اور روس شام میں تنازع سے نمٹنے کے لیے ایک نیا سہ فریقی اجلاس بلائیں گے۔
عراقچی نے کہا، "ہم نے قریبی مشاورت اور بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اللہ نے چاہا تو ہم اپنے خطے میں امن اور استحکام کی جانب صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے لیے تعاون کریں گے۔"
روس، جس کی شام کی خانہ جنگی میں مداخلت اسد کے حق میں تنازعہ موڑنے میں بہت اہم تھی، نے کہا ہے کہ وہ اسد کی حمایت جاری رکھے گا۔
سر پر 10 ملین ڈالر انعام ابو محمد الجولانی، شام کے نئے فاتح کون؟
شام کے شہر حلب پر حکومت مخالف باغیوں کا قبضہ ہوا تو اس حملے کی قیادت کرنے والے ایک باریش شخص کی تصاویر منظر عام پر آئیں جس نے عسکری لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اس شخص کا نام ابو محمد الجولانی ہے، جو حیات تحریر الشام نامی گروہ کے سربراہ ہیں۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق ابوجولانی کا اصل نام، ان کی تاریخ اور جائے پیدائش، شہریت کے بارے میں مختلف معلومات موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کی پراسرار شخصیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ابوجولانی 1975 اور 1979 کے درمیان پیدا ہوئے جبکہ انٹرپول کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 1975 ہے۔
امریکی ٹی وی نیٹ ورک پی بی ایس کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے مطابق ان کا اصلی نام احمد حسین ہے اور ان کو ابوجولانی گولان کی پہاڑیوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے جہاں سے ان کے خاندان کا تاریخی تعلق ہے۔
اسی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد پیٹرولیم انجینئر کے طور پر کام کرتے تھے۔ 1989 میں ان کے اہلخانہ شام واپس لوٹے اور اس کے بعد ان کی پرورش دمشق کے قریب ہوئی۔
چند خبروں کے مطابق انھوں نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن تیسرے سال کے دوران عراق میں القاعدہ میں اس وقت شمولیت اختیار کر لی جب امریکہ نے 2003 میں حملہ کیا۔
ان کی عراق واپسی کی اطلاعات موجود ہیں جہاں امریکی فوج نے انھیں گرفتار کیا اور کچھ عرصہ تک قید میں رہنے کے بعد جب 2008 میں ان کو رہائی ملی تو وہ نام نہاد دولت اسلامیہ میں شامل ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ انھیں امریکی کیمپ بکا نامی قید خانے میں رکھا گیا تھا جہاں ان کے نظریات پختہ ہوئے اور مستقبل میں بننے والی نام نہاد دولت اسلامیہ کے رہنماؤں سے تعلقات بھی استوار ہوئے۔
چند رپورٹس کے مطابق الجولانی اگست 2011 میں شام واپس لوٹے اور انھوں نے القاعدہ کی ایک شاخ کھولی جس کا مقصد صدر بشار الاسد کے خلاف جنگ تھا۔ تاہم ایک لبنانی اخبار نے دعوی کیا ہے کہ الجولانی حقیقت میں عراقی شہری ہیں اور ان کے نام کی وجہ فلوجہ کا وہ علاقہ ہے جسے الجولان کہتے ہیں اور ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔
2011 میں شام میں بغاوت خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی تو الجولانی ابوبکر البغدادی کی جانب سے خصوصی مشن پر شام پہنچے تاکہ دولت اسلامیہ کی ایک مقامی شاخ کی بنیاد رکھ سکیں۔ 2012 میں ’جبھہ النصرہ‘ کا آغاز ہوا اور یہ دولت اسلامیہ کی عراقی شاخ بن گئی۔
تاہم 2013 میں جب ابوبکر البغدادی نے باقاعدہ طور پر جبھہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے انضمام کا اعلان کیا تو الجولانی نے اسے رد کرتے ہوئے القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب جبھہ النصرہ عسکری اعتبار سے طاقتور ہوتی جا رہی تھی۔ جولائی 2016 میں الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کے گروہ کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اسے اب جبھہ فتح الشام کے نام سے پکارا جائے۔
2017 میں اس گروہ کو ’حیات تحریر الشام‘ کے نام سے ایک اتحاد کی شکل دی گئی جس میں دیگر تنظیمیں بھی شامل تھیں اور اس کے سربراہ الجولانی تھے۔
وہ علاقے جو ان کے گروہ کے زیر انتظام ہیں، وہاں ایک ایسی حکومت موجود ہے جو معیشت، صحت، تعلیم اور سکیورٹی تک کا انتظام کرتی ہے۔ الجولانی نے یہ کہا ہے کہ ان علاقوں میں ’اسلامی حکومت ہے لیکن دولت اسلامیہ کے نظریات کے تحت نہیں۔‘
امریکی حکومت بھی الجولانی کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر 10 ملین ڈالر کی انعامی رقم رکھی گئی ہے۔
داعش کا جن بوتل سے باہر آکر بڑا خطرہ بن سکتا ہے:
شام کے سیاسی محقق خورشید دلی نے خبردار کیا کہ معاملات جھڑپوں تک نہیں رکیں گے بلکہ جنگ عملی شکل میں شام کی سرزمین پر واپس آ گئی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ادلب اور حلب کو کنٹرول کرنے اور حماۃ کی طرف بڑھنے کے بعد دھڑوں کی طرف سے بہت بڑا، اچانک اور بڑا حملہ اب بھی پھیل رہا ہے اورآگے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ شام ایک بہت بڑے تنازع کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس بحران پر قابو پانے کے امکانات بہت مشکل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’داعش‘کی واپسی کے خدشات بڑھنے لگے ہیں کیونکہ موجودہ حالات داعش جیسے شدت پسند گروپوں کے لیے سازگار ماحول بن سکتا ہے۔