شامی اپوزیشن اتحادکا حلب اور الیپو پر قبضہ،کرفیونافذ

شامی اپوزیشن اتحادکا حلب اور الیپو پر قبضہ،کرفیونافذ
کیپشن: شامی اپوزیشن اتحادکا حلب اور الیپو پر قبضہ،کرفیونافذ

ویب ڈیسک: شامی اپوزیشن اتحاد نے شام کے بڑے شہروں حلب اور الیپو پر قبضہ کرلیا، کرفیو نافذ۔۔۔۔۔۔ روسی جنگی جہازوں کا  حملہ ، درجنوں ہلاک، یورپی یونین نے عام شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کردیا۔ 

شامی اپوزیشن فورسز نے صدر بشار الاسد کو ایک بڑا چیلنج  سر پرائز دیا ہے اوردرجنوں سرکاری فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب  اور الیپو پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

 یادرہے 2016 میں خانہ جنگی کے دوران حکومتی فورسز کے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شامی باغیوں نے حلب میں قدم رکھا ہے۔

 باغی جنگجو شہر کے اہم مقامات پر موجود ہیں انہوں نے ایس ڈی ایف کے جھنڈے لہراتے ہوئے  اللہ اکبر کے نعرے لگائے،

باغیوں نے شہر کے مرکز سے تقریباً 4.5 میل (7.2 کلومیٹر) مشرق میں شہر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ 

شامی افواج کا سرنڈر:

شامی فوج نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ اس کی افواج پسپائی اختیار کر رہی ہیں،  تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمک پہنچ رہی ہے اور سرکاری فورسز "جوابی کارروائی" کی تیاری کر رہی ہیں۔

حلب اور الیپو میں کرفیو:

باغی فورسز نے 24 گھنٹے کا کرفیو شام 5 بجے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ  شہریوں  کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے اورنجی وسرکاری املاک کو  نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے۔ لگتا ہے کہ پیش قدمی کرنے والے باغیوں کو شامی فوج کی طرف سے بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

بشارالاسد حمایتی روسی فضائیہ کی بمباری:

 دوسری طرف روس کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ باغیوں کی پیش قدمی کے جواب میں، روسی فضائیہ نے حلب اور ادلب صوبوں میں شامی مسلح اپوزیشن فورسز کے خلاف فضائی حملہ کیا جس میں متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

اپوزیشن کے زیر اہتمام امدادی تنظیم 'وائٹ ہیلمٹس' کے مطابق شام اور روس کے فضائی حملوں میں ادلب کے اندر 25 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران نیٹو کے چار ممالک نے 'شہریوں سمیت بنیادی ڈھانچے کے تحفظ' پر زور دیا ہے۔

حلب اور ادلب میں سرگرم کارکنوں اور صحافیوں نے سی این این کو بتایا کہ روسی جنگی طیاروں نے بدھ سے اب تک حلب اور ادلب کے دیہی علاقوں میں باغیوں کے ٹھکانوں پر کم از کم 10 حملے کیے ہیں۔

شہر کے مغرب سے آنے والی ویڈیو میں ہفتے کے روز ایک فضائی حملے کے بعد متعدد ہلاکتوں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ حملہ شامی یا روسی طیارے نے کیا۔

ویڈیو میں کم از کم سات لاشوں کے ساتھ ساتھ شدید جھلسنے والے افراد کو بھی دکھایا گیا ہے۔

مسلح گروپوں کے حالیہ حملے میں مرنے والوں کی کم از کم تعداد 412 تک پہنچ گئی ہے جن میں 61 عام شہری شامل ہیں۔ ان کے علاوہ 214 ہلاکتوں کا تعلق مسلح گروپوں اور 137 کا شام کی سرکاری فوج سے ہے۔

رہائشیوں نے بتایا کہ کرد فورسز نے حلب کے کچھ محلوں پر بھی اپنا کنٹرول بڑھا لیا ہے۔ اس ہفتے کے حملے سے پہلے ان کے پاس دو کرد محلے تھے لیکن اب وہ ان علاقوں میں چلے گئے ہیں جہاں شامی حکومت کا کنٹرول تھا۔

حلب کو کھونا اسد کی افواج کے لیے ایک اہم دھچکا ہے۔ کبھی شام کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر اور اس کا معاشی دارالحکومت، یہ دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں سے ایک ہے۔

حلب بھی باغیوں کا اہم گڑھ تھا جب تک کہ اسد نے 2016 میں اس پر قبضہ نہیں کیا۔ باغیوں کے دوبارہ وہاں قدم جمانے کے بعد، وہ ادلب میں مزید گھیرے میں نہیں ہیں۔

کرد ملیشیا، جسے YPG کے نام سے جانا جاتا ہے، شمالی شام میں دوسرے باغی گروپوں کے ساتھ تنازعات کی تاریخ رکھتی ہے۔

سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘‘ (ایس ڈی ایف) کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں کے بعد ترکیہ کے وفادار دھڑوں نے اتوار کو حلب کے شمال میں واقع شہر تل رفعت کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ’’ ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور دیگر دھڑوں نے حلب میں شام سات بجے سے صبح سات بجے تک کرفیو کا اعلان بھی کردیا۔ مسلح دھڑوں نے ’’ایس ڈی ایف‘‘ کو حلب شہر کو محفوظ طریقے سے چھوڑنے کی پیشکش کی تھی۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمٰن نے اتوار کی صبح  میڈیا کو بتایا تھا کہ تل رفعت میں دونوں فریقوں کے درمیان سخت تصادم شروع ہو گیا جو ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے میں 3 لاکھ سے زیادہ بے گھر کرد موجود ہیں۔

ترک سیکیورٹی ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ کرد عسکریت پسند امریکی حمایت یافتہ ایس ڈی ایف کے حوالے سے تل رفعت اور شمال مشرقی شام کے درمیان ایک راہداری قائم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ترکیہ کی حمایت یافتہ ’’ سیرین نیشنل آرمی فورسز‘‘ نے رقہ اور حلب کو ملانے والی سڑک کاٹ دی ہے ۔

شام میں انسانی حقوق کی رصد گاہ المرصد نے بتایا تھا کہ ترکی کے حمایت یافتہ مسلح گروپ شمالی حلب میں واقع متعدد شہروں اور دیہات پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

المرصد کے مطابق تل رفعت، منغ، مرعناز، کفرنایا، الشیخ عیسی، دیر جمال اور عین دقنہ کے علاقوں پر مسلح گروپوں کا کنٹرول ہے۔ مزید یہ کہ ان گروپوں نے ابھی تک متعدد دیہات کا محاصرہ کیا ہوا ہے جن میں كفر ناصح، احرص، حربل اور تل قراح وغیرہ شامل ہیں۔

مارچ 2020 میں روس اور ترکی کی جانب سے شام میں فائر بندی پر متفق ہونے کے بعد یہ شامی اپوزیشن فورسز کی پہلی پیش قدمی ہے۔

باغی ایک نئے تشکیل شدہ اتحاد کا حصہ ہیں جسے "ملٹری آپریشنز کمانڈ" کہا جاتا ہے، جس میں حزب اختلاف کے جنگجوؤں کا ایک وسیع میدان شامل ہے جس میں اسلام پسند دھڑے اور اعتدال پسند گروپ شامل ہیں جنہیں کبھی امریکا کی حمایت حاصل تھی۔

اس اتحاد کا اعلان بدھ کو حلب پر حملے سے قبل کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وہ شامی حکومت اور ایرانی ملیشیا کے بڑھتے ہوئے حملوں کا جواب دے رہا ہے۔ 

 یادرہے شام کا کلیدی حمایتی روس یوکرین اور اس کے دوسرے بڑے اتحادی ایران پر اسرائیلی حملوں اور اس کے پراکسی نیٹ ورک سے بیک فٹ پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

شام میں بین الاقوامی اتحاد (جس کی قیادت امریکا کر رہا ہے) کے جنگی طیاروں نے دیر الزور کے دیہی علاقوں میں القوریہ اور المیادین پر فضائی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایرانی ملیشیاؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

حکومت مخالف جنگجوؤں نے حلب اور دمشق کو ملانے والی مرکزی شاہراہ ’ایم فائیو‘ کوبند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ منغ ملٹری ایئربیس پربھی حکومت مخالف عسکریت پسندوں کا کنٹرول قائم اور کوریس شہر اور اس کے فوجی بیس پر بھی جنگجوؤں نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

ان دھڑوں نے ادلب پر بھی اپنے مکمل کنٹرول کا اعلان کیا اور حماۃ کے دیہی علاقوں میں درجنوں دیہات مزید آگے بڑھنے کا عزم کیا۔

یہ حملہ شامی اپوزیشن اور صدر اسد کی حکومت کے درمیان برسوں میں پہلی بڑی جھڑپ ہے، جو 2000 سے جنگ زدہ ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔

شام کی خانہ جنگی 2011 کی عرب بہار کے دوران شروع ہوئی جب حکومت نے اسد کے خلاف جمہوریت نواز بغاوت کو کچل دیا۔ ملک ایک مکمل پیمانے پر خانہ جنگی میں ڈوب گیا کیونکہ سرکاری فوجیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ ایک باغی فورس تشکیل دی گئی تھی، جسے آزاد شامی فوج کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق، ایک دہائی سے زائد عرصے کی جنگ میں 300,000 سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں، اور لاکھوں لوگ پورے خطے میں بے گھر ہو چکے ہیں۔

 شامی افواج میں کوئی بغاوت نہیں ہوئی ، سیریئن آبزرویٹری

سیریئن آبزرویٹری نے تصدیق کی ہے کہ " شام کی مسلح افواج سے وابستہ فوجی ڈویژنوں اور بریگیڈز کے اندر کوئی بغاوت نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے صرف افواہیں گردش کررہی ہیں‘‘۔

سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نے واضح کیا کہ ھیٗۃ تحریر الشام اور ’ایس ڈی ایف‘ کے عسکریت پسندوں کے درمیان براہ راست کوئی تصادم نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی وارننگ:

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن نے اتوار کے روز خبردار کیا کہ موجودہ لڑائی کے "علاقائی اور بین الاقوامی امن کے لیے سنگین نتائج ہوں گے"۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ "آج ہم شام میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ دراصل سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 پر عمل درآمد میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔

امریکا اور یورپی یونین کا شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ:

امریکا اور اس کے اتحادیوں فرانس، جرمنی اور برطانیہ  نے شام میں کشیدگی کو کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عام شہریوں اور انفراسٹرکچر کے تحفظ پر زور دیا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق چار ممالک کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یو این ایس سی آر کی شق 2254 کے مطابق اس وقت شام میں جو کشیدگی پائی جاتی ہے، اس کی مناسبت سے وقت کا تقاضا ہے کہ تنازعے کا سیاسی حل ڈھونڈا جائے۔‘

دہشت گردی جڑ سے اکھاڑ دینگے، صدر بشار الاسد:

صدر بشارالاسد نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے اتوار کے روز ان خیالات کا اظہار ماسکو کی حمایت یافتہ ریاست جارجیئن جمہوریہ ابخازیہ کے عہدے دار کے ساتھ فون پر گفتگو کے دوران کیا ہے۔

خبر رساں ادارے "ثنا"  کے مطابق صدر بشار الاسد نے کہا ' دہشت گرد صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ اس لیے اب ان کے ساتھ اسی زبان میں گفتگو کریں گے اور ان کا صفایا کریں گے۔'

صدر بشار الاسد نے مزید کہا ان دہشت گردوں کی حمایت میں کوئی بھی ہوا ، اس کی پروا نہیں کریں گے

انہوں نے کہا کہ ان کا ملک ’دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف اپنے استحکام اور علاقائی سالمیت کا دفاع جاری رکھے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ شام ان کو شکست دینے کے قابل ہے چاہے ان کے حملوں میں کتنی ہی شدت آئے۔

ایرانی فوجی مشیر دمشق میں موجود رہیں گے،ایران:

شام کے شہرحلب پر مسلح دھڑوں کے قبضے کے بعد ایرانی وزارت خارجہ نے شامی حکومت کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ دمشق کی درخواست پر ایرانی فوجی مشیروں کی دمشق میں موجودگی برقرار رہے گی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام اور خطے میں عدم تحفظ کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ لبنان میں جنگ بندی کے اعلان کے فوراً بعد دہشت گرد گروہوں کا دوبارہ متحرک ہونا محض ایک اتفاق یا حادثہ ہے، لیکن اگر ہم 2011ء اور 2012ء کے بعد شام میں دہشت گردی کے ابھرنے کی تاریخ پر نظر ڈالیں اور اس کے اور اسرائیل کے درمیان مشکوک تعلقات کو دیکھیں تو ہم ان واقعات کو محض اتفاق نہیں سمجھ سکتے۔

Watch Live Public News