(ویب ڈیسک) حلب اور ادلب میں شام اور روس کی مسلسل بمباری کے دوران شام کے مسلح دھڑوں نے حماۃ کے مزید علاقوں پر کنٹرول کا اعلان کردیا۔
رپورٹ کے مطابق ’’ ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور اتحادی دھڑوں نے متعدد ڈرونز کے ذریعے حماہ شہر کے شمال میں جبل زین العابدین کے علاقے میں شامی فوج کے عسکری رہنماؤں کے ایک بڑے اجتماع کو نشانہ بنایا جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔
دوسری جانب شامی روسی طیاروں نے حلب اور ادلب کے علاقوں پر حملے کیے ہیں۔ شام کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ حماۃ اور ادلب کے دیہی علاقوں میں روسی شامی بمباری میں درجنوں دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
شامی افواج کی جوابی بڑے حملے کی تیاری:
گذشتہ پانچ دنوں میں اچانک حملے کے بعد شامی فوج کے یونٹوں کے انخلاء کے بعد لڑائی میں بڑی شدت دیکھنے میں آئی ۔ ھیئہ تحریر الشام اور دیگر اتحادی دھڑوں نے ادلب اور حماۃ گورنری کے درجنوں قصبوں اور دیہاتوں پر بھی قبضہ کرلیا اور ان علاقوں سے شامی فورسز کو نکال دیا ہے۔ شامی فوج نے جوابی حملے کی تیاری شروع کرنے کا اعلان کیا۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق لڑائی میں مرنے والوں کی تعداد 445 سے زائد ہو گئی۔
ایران اورروس کا اظہار تشویش:
ایران اور روس دونوں نے صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دمشق کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے خانہ جنگی کے دوران گزشتہ برسوں میں بھی شامی حکومت کی حمایت کی تھی۔ عراق نے بھی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور کسی بھی حملے کو پسپا کرنے کے لیے اپنی تیاری کی تصدیق کی ہے۔
حماۃ پر قبضہ، صدر بشار الاسد پر دباؤ بڑھ گیا
حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کی حلب پر قبضے کے بعد حما شہر کی طرف پیش قد می جاری ہے۔
حما پر حملہ صدر اسد پر دباؤ بڑھا دے گا، جن کے روسی اور ایرانی اتحادی ان کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔ 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے یہ شہر حکومت کے قبضے میں ہے۔
تہران شام میں فوج بھیجنے پر غور کرے گا، ایرانی وزیر خارجہ
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے عربی زبان میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر دمشق کہے تو تہران شام میں فوج بھیجنے پر غور کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بقول انکے شام میں "دہشت گرد جارحیت" کے خاتمے پر زور دیا۔
عراق کے وزیر اعظم شیعہ السوڈانی نے کہا کہ بغداد شام میں "محض تماشا" نہیں دیکھےگا۔ ان کے دفتر نے باغیوں کی پیش قدمی کے لیے، شامی حکومت پر اسرائیلی فوجی حملوں کو مورد الزام ٹھرایا۔
امریکی طیاروں کا حملہ،ہتھیاروں کا نظام تباہ:
ادھر واشنگٹن میں پینٹا گون نے کہا ہے کہ امریکی فوجیوں نے مشرقی شام میں اپنے دفاع میں کارروائی کی جس کا محکمہ دفاع کے مطابق ملک میں جاری باغیوں کی پیش قدمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے دفاع میں ہتھیاروں کے نظام کے خلاف حملہ کیا۔
پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ منگل کو امریکی فوج نے ملٹری سپورٹ سائٹ فرات میں امریکی فوجیوں کی طرف پروجیکٹائل داغے جانے کے بعد تین موبائل راکٹ لانچرز اور ایک ٹینک سمیت ہتھیاروں کے نظام کو نشانہ بنایا۔
حزب اللہ کی مدد نہ آسکی
شام میں بشارالاسد کو اپوزیشن کے سنگین حملوں کا کئی سال کے وقفے کے بعد پھر سامنا ہو گیا ہے ، اس دوران اس سے حلب شہر کو بھی چھین لیا گیا ہے ۔ مگر اب کی بار حزب اللہ اپنی فوجی کمک شام بھیج کر بشارالاسد کی فوری مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اسرائیلی بمباری کے وقفوں کے ساتھ جاری رہنے والے شام میں واقعات بشارالاسد کے لیے ایک بڑا چیلنج تھے مگر اب اچانک شام کے اندر سے حملوں نے بشارالاسد اور ان کے اتحادیوں کو حیران کر دیا ہے۔
تاہم حزب اللہ جسے پچھلے دو اڑھائی ماہ کے دوران بد ترین بمباری اور اسرائیلی حملوں میں اپنے سربراہ حسن نصراللہ سمیت ہزاروں لبنانیوں کی ہلاکت سہنا پڑی ہے اس کے تین مختلف ذرائع کا کہنا تھا کہ فی الحال حزب اللہ شام میں اپنے جنگجو بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
شام میں متحارب پانچ بڑے گروہ کون ہیں ؟
شام جنگ میں موجود متحاربعسکری قوتیں، میں سے زیادہ تر کو بین الاقوامی یا علاقائی حمایت حاصل ہے یہ 5 گروپس میں تقسیم ہیں۔
ھیۃ تحریر الشام
شام میں 27 نومبر سے شروع ہونے والے حملے سے پہلے ھیۃ تحریر الشام جو ماضی میں ’النصرہ فرنٹ‘ کہلاتی تھی اور القاعدہ کا حصہ رہ چکی ہے اور اس کے اتحادی دھڑوں نے ادلب گورنری (شمال مغربی) کے تقریباً نصف اور ملحقہ محدود حصوں پر کنٹرول کر لیا۔ اس نے حلب، حماۃ اور لاذقیہ گورنریوں کا تقریبا تین ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ چھین لیا۔
خطے میں اپوزیشن کے کم بااثر دھڑوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند جہادی گروپ بھی ہیں جن کی طاقت میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔ ان میں "ترکستان اسلامک پارٹی" شامل ہے جس میں ایغور جنگجو ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 50 لاکھ لوگ دھڑوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر دوسری گورنریوں سے بے گھر ہوئے ہیں۔
اس اچانک حملے کے بعد، جسے برسوں میں سب سے زیادہ پرتشدد سمجھا جاتا ہے دھڑوں نے اپنے کنٹرول کے علاقے کو دوگنا کر دیا۔ شامی امور کے ماہر فابریس بالانش کے مطابق حلب شہر، وسطی حماۃ اور ادلب کے دیہی علاقوں کے درجنوں قصبوں اور شہروں پر ان کا کنٹرول ہے۔
حکومتی افواج
خانہ جنگی کے پہلے سالوں کے دوران حکومتی فورسز نے ملک کے زیادہ تر علاقے کو مخالف دھڑوں، کرد جنگجوؤں اور پھر ISIS کے ہاتھوں کھو دیا، لیکن ستمبر 2015ء میں روسی مداخلت نے بتدریج زمینی طاقت کے توازن کو ان کے حق میں موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بالانش کے مطابق روسی فضائی مدد، ایرانی فوجی مدد اور لبنانی حزب اللہ کے ساتھ حکومتی افواج نے بدھ کو دھڑوں کے حملے شروع ہونے سے پہلے، ملک کے دو تہائی علاقے پر کنٹرول کر لیا، جہاں 12 ملین افراد رہائش پذیر ہیں۔
ھیۃ تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑوں نے ایک اچانک حملے کے بعد حلب میں تیزی سے پیش قدمی کرکے شامی حکومت ہی نہیں بلکہ اس کے اتحادیوں اور پوری دنیا کو حیران کردیا۔اس سے 2011ء میں شامی خانہ جنگی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی یاد تازہ ہوگئی ہے جب شام کا بیشتر حصہ اسد رجیم کے کنٹرول سے باہر ہوگیا تھا۔
حالیہ فوجی کشیدگی کئی برسوں کے نسبتاً پرسکون رہنے کے بعد سامنے آئی ہے۔ فوجی کنٹرول کے نقشے کو نئے سرے سے تبدیل کرنے کے بعد حکومتی افواج اپنے اتحادیوں کی مدد سے اپوزیشن کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی تھیں مگر کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ شکست خوردہ گروپ دوبارہ پوری قوت سے حملہ آور ہوں گے۔
آج حکومتی افواج دمشق اور اس کے دیہی علاقوں کے علاوہ جنوب میں سویدا، درعا اور قنیطرہ، حمص، حماۃ، طرطوس اور لطاکیہ کے سب سے بڑے حصے پر کنٹرول رکھتی ہیں۔
یہ حلب گورنری کے کچھ حصے، جنوبی رقہ کے دیہی علاقے اور دیر الزور گورنری کے نصف حصے پر بھی شامی حکومتی فوج کا کنٹرول ہے۔
حکومت افواج کو مقامی گروہوں کی مدد حاصل ہے۔ ان کی وفادار قومی دفاعی افواج اور دیگر ایران کے وفادار جن میں افغان، پاکستانی، عراقی اور لبنانی حزب اللہ کے جنگجو شامل ہیں۔
شامی فوج بنیادی طور پر دیر الزور میں الورد، التیم، الشولہ اور نشان آئل فیلڈز، رقہ میں الثورہ فیلڈ اور حمص میں جزل فیلڈ کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس میں الشعر فیلڈ، سب سے بڑا گیس فیلڈ اور حمص میں صاد اور اراک فیلڈز بھی ہیں۔
شامی فوج کے زیر کنٹرول علاقوں میں روسی فوجیوں کے لیے متعدد کیمپ قائم ہیں۔
ماسکو کے مطابق گذشتہ برسوں میں 63,000 سے زائد روسی فوجیوں نے شام میں فوجی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ شام میں اس وقت کتنی روسی افواج موجود ہیں لیکن شام میں روس کے دو نمایاں فوجی اڈے ساحلی شہر لطاکیہ کے قریب حمیمیم ہوائی اڈہ اور دوسرا طرطوس کی بندرگاہ میں روس کے پاس ہے جس میں بنیادی طور پر ایک روسی کمپنی کی سرمایہ کاری ہے۔
کرد جنگجو
سنہ 2012ء کے بعد کردوں نے اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں (شمال اور مشرق میں) میں "انتظامیہ" کے قیام کا اعلان کیا جب شامی فوج بغیر کسی تصادم کے ان کے ایک بڑے حصے سے دستبردار ہو گئی۔ان علاقوں میں بتدریج کرد جنگجوؤں کے ساتھ امریکی فوج بھی تعینات ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہ شام میں داعش کے خلاف لڑائیوں میں مصروف ہے۔
2015 میں، "سیرین ڈیموکریٹک فورسز" کا قیام عمل میں آیا تھا، اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس ہیں، جن میں عرب اور شامی عیسائی دھڑے شامل ہیں۔ ’ایس ڈی ایف‘ خود مختار انتظامیہ کا عسکری ونگ سمجھا جاتا ہے۔
سیریئن ڈیموکریٹک فورسز جنہوں نے داعش کے خلاف جنگ میں اہم خدمات انجام دیں شامی فوج کے بعد زمین پر قبضہ کرنے والی دوسری فوجی قوت ہے۔ آج یہ ملک کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر قابض ہے، جہاں تقریباً تیس لاکھ لوگ رہتے ہیں، جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ کرد ہیں۔
آج ان فورسز کے کنٹرول کے علاقوں میں شمال مشرق میں الحسکہ گورنری شامل ہے جہاں شامی فوج قمشلی اور الحسکہ شہروں میں اداروں کے ذریعے چند محلوں میں موجود ہے۔ اس کا کنٹرول رقہ گورنری کی اکثریت پر بھی ہے۔ رقہ شہر جو برسوں سے ’آئی ایس آئی ایس‘ کا گڑھ رہا اب ایس ڈی ایف کے قبضے میں ہے۔ اس کے علاوہ کرد جنگجو دیر الزور گورنری کے نصف حصے پر بھی کنٹرول کرتے ہیں حلب شہر کے شمال میں واقع محلوں اور گورنری کے محدود علاقوں پر بھی ہے۔
شام کے سب سے نمایاں آئل فیلڈز اس کے کنٹرول میں ہیں، جن میں العمر، جو ملک کا سب سے بڑا ہے، اور دیر الزور میں التناق اور جعفرا کے ساتھ ساتھ الحسکہ اور رقہ میں چھوٹے آئل اور گیس فیلڈز بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیر الزور میں کونیکو گیس فیلڈز اور حسکہ میں سویڈش گیس فیلڈز انہی کے کنٹرول میں ہے۔
امریکی افواج کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف "بین الاقوامی اتحاد" کے اندر تعینات ہیں۔ یہ جنوبی شام میں التنف اڈے پر موجود ہیں جو 2016 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ اڈاہ اردن-عراق سرحد کے قریب بغداد-دمشق شاہرا پر واقع ہے۔
ترکیہ کے وفادار گروپ
سنہ 2016ء کے بعد سے ترکیہ نے اپنے وفادار شامی دھڑوں کے ساتھ مل کر شمالی شام میں کئی فوجی کارروائیاں کیں، خاص طور پر کرد جنگجوؤں کو اپنی سرحدوں سے دور دھکیلنے کے لیےانہیں نشانہ بنایا۔
ترک افواج اور ان کے وفادار دھڑے حلب کے شمال مشرقی دیہی علاقے جرابلس سے اس کے مغربی دیہی علاقوں میں عفرین تک پھیلی سرحدی پٹی کو کنٹرول کرتے ہیں، جو الباب اور عزاز جیسے بڑے شہروں سے گزرتی ہے۔
وہ سرحدی شہروں راس العین اور تل ابیض کے درمیان 120 کلومیٹر طویل ایک علیحدہ سرحدی علاقے کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔
اس میں انقرہ کے وفادار دھڑے شامل ہیں اور اس سے وابستہ جنگجو گروپ ہیں جنہیں "سیرین نیشنل آرمی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ترک نواز گروپ بنیادی طور پر شمال میں سرگرم ہیں۔ سلطان مراد دھڑا اور دوسرے ترک شمالی شام میں فوجی کارروائیوں کے ساتھ ابھرے، جن میں "الحمزہ" اور "سلیمان شاہ" دھڑے شامل ہیں۔
داعش
سنہ 2014ء میں شام اور عراق میں بڑے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے بعد شدت پسند تنظیم ’ داعش‘ کو دونوں ممالک میں پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ 2019ء میں اس کے زیرکنٹرول تمام علاقے اس سے چھین لیے گئے۔ تب سے اب تک تنظیم کے چار رہنما مارے جا چکے ہیں، لیکن اس کے چھپے ہوئے ارکان ہیں اب بھی موجود ہیں۔ وہ اب بھی کئی سمتوں سے حکومت کے خلاف محدود حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
داعش اکثر شامی فوج کے خلاف وسیع شام کے صحرائی علاقے میں حملوں کا دعویٰ کرتی ہے۔
اس کے جنگجو اب بھی دیر الزور گورنری میں سرگرم ہیں، جو شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کرتے ہیں، اور شامی فوج اور "سیرین ڈیموکریٹک فورسز" کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
روس ، ایران کا بشارالاسد کی غیر مشروط مدد جاری رکھنے کا اعلان
روس اور ایران نے باہم اتفاق کیا ہے کہ دونوں ملک ' شام کے صدر بشار الاسد کی غیر مشروط مدد جاری رکھیں گے۔' یہ اتفاق روس اور ایران کے صدور کے باہمی رابطے کے نتیجے میں کیا گیا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے شام میں پیدا صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور مشترکہ حکمت عملی اور اعلان پر اتفاق کیا۔ اس سے پہلے وزرائے خارجہ کی سطح پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان شامی صورتحال کے بارے میں رابطے ہو چکے ہیں۔
صدرپوٹن کا ایرانی ہم منصب کو فون
کریملن کے ترجمان کے مطابق صدر پوتین اور صدر مسعود پیزشکیان کے درمیان فون پر رابطہ ہوا اور دونوں نے دو طرفہ دلچسپی کے امور کے علاوہ شام کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنماؤں نے شام کی جائز اور قانونی بشار الاسد حکومت کی غیر مشروط حمایت، شام میں آئین کی حکمرانی اور شام کی قومی خود مختاری کی حمایت کی حکمت عملی پر اتفاق کیا۔
حماہ میں سرکاری فوج کا بڑا قافلہ داخل:
شام میں سرکاری فوج کے اعلان کے مطابق حماہ کے دیہی علاقے میں زیادہ بڑا فوجی قافلہ داخل ہو گیا ہے۔ اس کا مقصد محاذوں پر تعینات فوج کی سپورٹ کرنا اور ڈویژن 25 کی کمان اور حماہ شہر کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب شامی فوج ادلب اور حلب کے دیہی علاقوں پر شدید حملے کر رہی ہے۔ ان کارروائیوں میں اسے روسی فضائیہ کی معاونت حاصل ہے۔