سیاحتی مقام"ڈھائی دن کا جھونپڑا" بھی انتہاپسندہندوؤں کے نشانے پر

سیاحتی مقام
کیپشن: درگاہ اور مساجد کے بعد سیاحتی مقام بھی انتہاپسندہندوؤں کے نشانے پر

ویب ڈیسک: خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی درگاہ کے بعد اب ’’ڈھائی دن کا جھونپڑا ’’ بھی ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر،، عمارت سنسکرت اسکول اور مندر کو گرا کربنائی گئی۔ڈپٹی مئیر اجمیرکا متنازع بیان وائرل ہوگیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اجمیر کے ڈپٹی میئر نیرج جین نے  وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ  ’’ڈھائی دن کا جھونپڑا’’ کی عمارت کواس کی اصلی شکل میں واپس کیا جائے اور نالندہ یونیورسٹی کی طرح اسے محفوظ کرلیا جائے۔ 

یاد رہے کہ’’ ڈھائی دن کا جھونپڑا’’ نامی ایک خوبصورت بلڈنگ جو دراصل ایک سیاحتی مقام ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے قریب تارا گڑھ کی پہاڑی کے نیچے واقع ہے۔

تاہم حالیہ دنوں میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے چلائی جانے والی ملک گیر مہم کے تحت اب  اجمیر کے ڈپٹی میئر نیرج جین  نے بھی دعوی کردیا ہے کہ ’’ ڈھائی دن کا جھونپڑا’’  دراصل سرسوتی کانتھا بھرنا ودیالیہ نام کا سنسکرت اسکول تھا۔ جو اجمیر کے حکمران ویگراہ راج چوہان چہارم کی جانب سے قائم کیا گیا تھا۔

ڈپٹی میئر نیرج جین کا بے بنیاد اور متنازع بیان کے مطابق 1194 میں محمد غوری کے گورنر قطب الدین ایبک نے اسے گرا کر مسجد تعمیر کروائی تھی۔ 

پوری عمارت 16 ستونوں پر قائم ہے۔ جین کا دعویٰ ہے کہ ڈھائی دن کا جھونپڑا میں کمل اور سواستیکا کی علامتیں اب بھی موجود ہیں۔ 

 تاہم اجمیر درگاہ کے خادمین کی تنظیم انجمن کے سکریٹری سرور چشتی نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ چشتی نے کہا کہ ترائن کی جنگ میں محمد غوری کی جیت کے بعد غوری نے اجمیر میں ہندوؤں کی کوئی عمارت نہیں گرائی۔ اس وقت کے کئی مندر آج بھی موجود ہیں۔ پرتھوی راج چوہان کو ہندوستان کا آخری ہندو شہنشاہ سمجھا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ہندو انتہاپرست وزیراعظم مودی کی زیر قیادت بھارت میں مسلمانوں کی مساجد اور درگاہوں کو مندر میں بدلنے کی مذموم مہم جاری ہے۔ جس کے تحت سنبھل اور اجمیر شریف کے بعد اب بدایوں میں واقع مسجد اور کرناٹک میں واقع درگاہ کومندر قراردیا جاچکا ہے۔

ہندو انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ بدایوں میں شمسی جامع مسجد دراصل پہلے نیل کنٹھ مہادیو مندر تھا، جسے توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر موجود مسجد کا قیام ہندو عبادت گاہ کو گرا کر ہوا تھا۔ 

دوسری جانب، مسلم فریق نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بادشاہ شمس الدین التمش نے یہ مسجد تعمیر کروائی تھی اور اس جگہ کبھی بھی مندر یا مورتی کا وجود نہیں تھا۔

پیر پاشا بنگلہ درگاہ نہیں انوبھو منڈپم ہے:

اسی طرح ریاست کرناٹک کے بیدر ضلع میں واقع ’پیرپاشا بنگلہ درگاہ‘ کو بھی جعلی طور پر انوبھو منڈپم قراردیا گیا ہے۔

بی جے پی رکن اسمبلی بسن گوڑا نے کہا ہے کہ ہماری تحریک تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک ’انوبھو منڈپم‘ پھر سے اپنی جگہ پر کھڑا نہیں ہو جاتا۔ رکن اسمبلی کا دعویٰ ہے کہ جہاں پر درگاہ ہے وہاں پر اصل میں ’انوبھو منڈپم‘ تھا۔ 

انوبھو منڈپم کیا ہے؟

’انوبھو منڈپم‘  قدیم زمانے کے دربار یا پارلیمنٹ کو کہا جاتا ہے۔ 

انوبھو منڈپم کی تعمیر 12ویں صدی قبل از مسیح میں ہندو بھگوان بسویشور نے کی تھی۔ بھگوان بسویشور اپنے یوگی صدر پربھو دیوا کے وزیراعظم کے طور پر کام کرتے تھے۔ 

اس منڈپم کے لیے سب لوگ برابر تھے۔ مرد و خواتین غریب امیر کو بھی بلا امتیاز یکساں حقوق دیے جاتے تھے۔

یادرہے 2021 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا نے 500 کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ’انوبھو منڈپم‘ کی بنیاد رکھی تھی۔

اس وقت 7.5 ایکڑ زمین پر 6 منزلہ نئے ’انوبھو منڈپم‘ کی تعمیر ہو رہی ہے۔ اس پروجیکٹ میں الٹرا ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال ہوگا۔ اس میں روبوٹ سسٹم، اوپن ایئر تھیٹر، پانی کے تحفظ کا جدید نظام، لائبریری، تحقیقی مرکز، پرارتھنا ہال اور یوگا سینٹر بنانے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔

Watch Live Public News