ویب ڈیسک: راجستھان میں واقع حضرت خواجہ پیر معین الدین چشتی اجمیری کے مزار ’اجمیر شریف‘ مسجد نہیں مندر ہے ،، ہندو انتہاپسندوں کی درخواست عدالت میں سماعت کیلئے دائر،، 20 دسمبر کیلئے نوٹس جاری کردیا۔
رپورٹ کے مطابق’ ہندو سینا‘ کی جانب سے یہ درخواست دائر کی گئی تھی جسے سماعت کیلئےمنظور کر لیا گیا ہے۔ اس عرضی میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اجمیر خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ میں شیو مندر ہے۔
حالیہ دنوں میں قدیم مساجد و مزارات کے سروے کا معاملہ مسلسل سامنے آ رہا ہے۔ گیانواپی کے بعد کچھ روز قبل ہی سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ سروے کے دوران پولیس تشدد سے کم از کم 4 بھارتی مسلمانوں کی موت واقع ہوئی تھی۔
ویسٹ سول جج سینئر ڈویژن منموہن چندیل کی عدالت نے بدھ کو سماعت کی۔ جسٹس منموہن چندیل نے درگاہ کمیٹی، اقلیتی امور، دفتر آثار قدیمہ سروے آف انڈیا، نئی دہلی کو سَمن نوٹس جاری کردئیے ہیں۔ اجمیر درگاہ کے خلاف یہ عرضی ’ ہندو سینا‘ کے قومی صدر وشنو گپتا نے داخل کی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اجمیر شریف درگاہ کو ’بھگوان شری سنکٹ موچن مہا دیو وراجمان مندر‘ قرار دیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ درگاہ کمیٹی کے ذریعے کیے گئے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کو بھی ہٹایا جائے۔
اجمیر درگاہ معاملے میں عرضی داخل کرنے والے وشنو گپتا نے اپنے وکیل کے ذریعہ دعویٰ کیا ہے کہ درگاہ مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی ہے۔ اسی لیے اسے ’بھگوان شری سنکٹ موچن مہا دیو ویراجمان مندر‘ قرار دیا جانا چاہیے۔ عرضی میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ جس ایکٹ کے تحت درگاہ چلتی ہے اسے کالعدم قرار دیا جائے اور ہندوؤں کو پوجا کا حق دیا جائے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو اس جگہ کا سائنسی سروے کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ وشنو گپتا کے وکیل ششی رنجن کے مطابق عرضی گزار نے 2 سال تک اس معاملے میں تحقیق کی ہے۔ تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جہاں پر اجمیر درگاہ ہے، وہاں پہلے ایک شیو مندر تھا جسے ’مسلم حملہ آوروں‘ نے نیست و نابود کر کے درگاہ کی تعمیر کی تھی۔
اجمیر کی درگاہ کمیٹی کے سیکریٹری سید سرور چشتی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اب ایسا کوئی تنازع پیدا نہیں ہو گا۔ انھوں نے درگاہ کو تمام مذاہب کے ماننے والوں کی عقیدت کا مرکز قرار دیا۔
آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل کے صدر اور درگاہ کے سجادہ نشین کے جانشین سید نصیر الدین چشتی نے مذکورہ دعوے کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ ہم اس کا جواب قانونی طور پر دیں گے۔
انھوں نے کہا کہ 1910 کی جس کتاب کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس میں بے بنیاد دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کی بنیاد پر ساڑھے سات سو سال کی تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کے ذمہ داروں اور متعدد سیاست دانوں کی جانب سے ہر سال عرس کے موقع پر درگاہ پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے مذہبی مقامات کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوششوں پر سخت تنقید کی اور عدالتوں سے اپیل کی کہ وہ 1991 کے عبادت گاہ قانون کو نافذ کریں۔