ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے یوپی کی سنبھل شاہی مسجد معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے سیشن عدالت کو کیس کی سماعت سے روک دیا۔ مسلم فریق کو ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ مسجد کمیٹی کو اپنے قانونی حقوق استعمال کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے کیس کو زیرالتوا رکھا ہے اور اب اس کی سماعت 8 جنوری سے پہلے ہوگی۔
چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بنچ نے کہا کہ مسجد کمیٹی کو اپنے قانونی اختیارات کا استعمال کرنے کا موقع دیا جائے۔ چاہے وہ ہائی کورٹ ہو یا ڈسٹرکٹ کورٹ۔ اس کے ساتھ یوگی حکومت کو بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے کی نصیحت کی گئی۔
سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ علاقے میں امن و ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ کمشنر کی رپورٹ کو مہر بند لفافے میں رکھنے اور اسے نہ کھولنے کا بھی حکم دیا ہے۔
یاد رہے19 نومبر کو سنبھل کی سول عدالت کے جونیئر جج نے جامع مسجد کے سروے کا حکم جاری کیا تھا۔ 24 نومبر کو جب سروے ٹیم جامع مسجد پہنچی تو علاقے کے افراد اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں تشدد بھڑک اٹھا اور 6 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
کیس کی سماعت کے آغاز میں جامع مسجد کمیٹی کی جانب سے سینئر وکیل حفیظہ احمدی نے سپریم کورٹ کے سامنے نچلی عدالت کے حکم کی کاپی پیش کی۔ اس پر چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے کہا کہ عدالت حکم دیکھ چکی ہے لیکن کیس پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بینچ کے سامنے وکیل احمدی نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایسے 10 مقدمات زیر التوا ہیں، جہاں فوراً سروے کا حکم دے دیا گیا اور سروے کمشنر بھی تعینات کردیا گیا۔ انہوں نے درخواست کی کہ ایسے احکامات روکے جائیں۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر اس معاملے میں مزید کارروائی نہیں ہوگی اور ٹرائل کورٹ 8 جنوری تک کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ سپریم کورٹ نے مسجد کمیٹی کو بتایا کہ انہیں سول جج کے حکم کو چیلنج کرنے کا حق حاصل ہے اور وہ سی پی سی اور آئین کے تحت اپیل کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ضلع انتظامیہ کے وکیل ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹ راج کو کہا کہ اس مرحلے پر ہم کوئی فیصلہ نہیں دیں گے لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ علاقے کے حالات ٹھیک رہیں اور امن و ہم آہنگی برقرار رہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ تمام فریقین کو غیرجانبدار رہنا ہوگا اور قانونی راستوں کا استعمال کرنا ہوگا۔
ہندو فریق کا دعویٰ
درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ اس مقام پر بھگوان کلکی کا مندر تھا جسے مغل حکمران بابر نے 1526 میں منہدم کر دیا اور ان کے سپہ سالار ہندو بیگ نے 1528-1527 میں وہاں مسجد کی تعمیر کی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اسی مقام پر بھگوان کلکی کا اوتار ہو گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق وہاں قدیم زمانے میں بھگوان وشنو اور بھگوان شیو کی ایک نشانی ملی تھی جس کی وجہ سے اسے ہری ہر مندر کہا جاتا ہے۔ اس مندر کی تعمیر کائنات کے آغاز پر بھگوان وشو کرما نے کی تھی۔
ان کا یہ بھی استدلال ہے کہ قدیم آثار کے تحفظ کے قانون 1904 کے تحت اس مسجد کو 22 دسمبر 1920 کو محفوظ یادگار کے طور پر نوٹی فائی کیا گیا تھا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کی محفوظ یادگاروں کی فہرست میں اسے قومی اہمیت کی حامل عمارت قرار دیا گیا ہے۔
لیکن محکمہ آثار قدیمہ اس پر اپنا کنٹرول رکھنے میں ناکام ہے اور مسجد کمیٹی نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ محفوظ یادگار کے قانون کے تحت اس میں ہر شخص کو داخل ہونے کا حق ہے۔ تمام لوگوں کو مسجد کے اندر جانے کی اجازت دی جائے اور مسلمانوں کو لوگوں کے داخل ہونے سے روکنے کو منع کیا جائے۔
مقامی مسلمان ہندوؤں کے دعوے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ وہ مسجد کے اندر نصب ایک کتبے کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے مطابق مسجد کو بابر کے زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس پر سن 933 درج ہے جو کہ انگریزی سنہ کے حساب سے 1526 ہوتا ہے۔
لیکن عرضی گزار گزٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کتبہ فرضی ہے اور اس کی دوسری جانب سنسکرت زبان میں اس کے مندر ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔
عدالت میں مسجد کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ ظفر علی کا کہنا ہے کہ 19 نومبر کو دو گھنٹے میں سروے مکمل ہو گیا تھا۔ کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہیں پائی گئی۔ کوئی ایسی چیز ملی ہی نہیں جس سے کوئی شک بھی پیدا ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شاہی جامع مسجد واقعی ایک مسجد ہے مندر نہیں۔
مسلم وکلا کے مطابق عدالت نے انھیں اپنا مؤقف رکھنے کا موقع دیے بغیر سروے کا حکم دے دیا۔ اس نے کسی بھی ناخوش گوار واقعے کو روکنے کے لیے امن کمیٹی کی میٹنگز کے انعقاد کا بھی موقع نہیں دیا۔
ان کے مطابق مسجد کی چار دیواری اور مقفل اسٹور روم کو کھلوا کر اس کا بھی سروے کیا گیا۔ مسجد کے ذمہ داروں نے سروے کمشنر کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔
سنبھل کے رکن پارلیمان ضیاء الرحمن برق نے سروے کو عجلت میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔ ان کے مطابق عدالت نے ہمیں جواب داخل کرنے کا موقع نہیں دیا۔
ان کے مطابق باہری لوگوں نے شہر کا ماحول خراب کرنے کے مقصد سے عدالت میں درخواست داخل کی ہے۔ انھوں نے 1991 کے عبادت گاہ بل کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی اسی شکل میں رہے گی۔
ان کے بقول سنبھل کی جامع مسجد میں مسلمان کئی صدی سے نماز ادا کر رہے ہیں۔ اگر مقامی عدالت ہماری اپیل پر کوئی اطمینان بخش فیصلہ نہیں دیتی ہے تو ہمیں ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق ہے۔
دوسری طرف اتر پردیش کی یوگی حکومت نے سنبھل میں حالیہ دنوں پیش آنے والے تشدد کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ریاست کے محکمہ داخلہ کے مطابق، ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج دیویندر کمار اروڑہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو واقعے کی تحقیقات کرے گی۔
کمیٹی کے دیگر دو ارکان میں سابق آئی اے ایس افسر امت موہن پرساد اور سابق آئی پی ایس افسر اروند کمار جین شامل ہیں۔ اس کمیٹی کو دو ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔