برطانیہ میں الیکشن، لیبر پارٹی تاریخی فتح کی طرف گامزن

its starmer time
کیپشن: its starmer time
سورس: google

ویب ڈیسک : برطانیہ میں آج الیکشن ہو رہے ہیں۔ برطانوی فرم YOUGOV کی طرف سے کرائے گئے ایک رائے عامہ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانوی لیبر پارٹی انتخابات میں تاریخی فتح کی طرف گامزن ہے۔

 وہ کنزرویٹو کے 22 فیصد کے مقابلے میں 39 فیصد ووٹ حاصل کرے گی اور 102 کے مقابلے میں 431 سیٹیں حاصل کرے گی۔

رپورٹ کے مطابقبرطانوی قانون ساز انتخابات کے موقع پر لیبر پارٹی کے جیتنے کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ یہ پارٹی ووٹنگ کے ارادوں سے متعلق سرویز میں سب سے آگے ہیں۔ اسے ٹونی بلیئر کے دور سے دی سن اخبار کی بے مثال حمایت حاصل رہی ہے۔

چھ ہفتوں کی مہم اور کنزرویٹو حکمرانی کے 14 سال کے بعد، جس میں پانچ وزرائے اعظم کی جانشینی دیکھی گئی اور جن میں سے چار مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے، برطانیہ میں جمعرات کو توقع کی جا رہی ہے کہ لوگ سنٹرل لیفٹ کو ووٹ دیں گے اور کیر سٹارمر کو ڈاؤننگ سٹریٹ تک پہنچا دیں گے۔

’’ یہ لیبر پارٹی کا وقت ہے’’ 

آسٹریلوی- امریکی ارب پتی روپرٹ مرڈوک کے خاندان کے زیر ملکیت دی سن اخبار نے لکھا ک یہ تبدیلی کا وقت ہے۔ یہ لیبر پارٹی کا وقت ہے۔ 1997 میں اخبار ’’ دی سن‘‘ نے ٹونی بلیئر کے جیتے گئے انتخابات کے دوران لیبر پارٹی کی حمایت کی تھی ۔ پھر یہ اخبار 18 سال تک اپوزیشن کی طرف رہا۔ اس نے 2010 میں ڈیوڈ کیمرون کی جیت سے قبل تک کنزرویٹو کی حمایت کی تھی۔

بورس جانسن کی ریلی میں شرکت سے سب حیران

سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی لندن میں منگل کی شام کنزرویٹو مہم کی ریلی میں حیرت انگیز طور پر نظر آنے سے بھی کوئی فرق پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ بورس جانسن کے موجودہ وزیر اعظم رشی سونک کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ وہ اب تک انتخابی مہم سے دور رہے ہیں اور منگل کو ان کا ریلی میں شرکت کرنا حیران کن تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی ٹیکس بڑھانا چاہتے ہیں، اگر آپ بے قابو امیگریشن چاہتے ہیں اور اگر آپ برسلز کو بیکار محکوم بنانا چاہتے ہیں تو جمعرات کو لیبر کو ووٹ دیں۔

  لیبر پارٹی ناقابل یقین فتح کی دہلیز پر
سینئر کنزرویٹو شخصیات نے ووٹروں سے مطالبہ کیا کہ وہ ہاؤس آف کامنز میں لیبر کو بڑی اکثریت نہ دیں۔ سونک کی مہم کے دوران سب سے نمایاں حامیوں میں سے ایک لیبر منسٹر میل سٹرائیڈ نے بدھ کے روز ٹائمز ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ "ہم شاید ایسی اس سب سے بڑی فتح کے قریب ہیں ہیں جو ہم نے کبھی نہیں دیکھی ہے۔"

سابق وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے ٹیلی گراف میں لکھا کہ معاملہ ختم ہو گیا اور ہمیں اختلاف رائے سامنے آنے اور اس سے پیدا ہونے والی مایوسی کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔

مشکل سالوں کے بعد جس کے دوران برطانویوں نے اپنے ملک کے یورپی یونین سے اخراج، معاشی اور سماجی بحران، کووِڈ 19 کے پھیلاؤ، سکینڈلز اور سیاسی عدم استحکام کا تجربہ کیا 2022 میں تین کنزرو ویٹو وزرائے اعظم آئے اور 2010 سے اب تک پانچ وزرائے آچکے ہیں۔ اس دوران ووٹرز صرف ایک چیز یعنی تبدیلی کا انتظار کرتے رہے۔

سٹارمر کون ہیں ؟

اس وقت ضرورت سے زیادہ امید یا امید کا ماحول نہیں ہے، لیکن برطانوی لیبر پارٹی کے سادگی پسند اور غیر معروف رہنما کیئر سٹارمر کو موقع دینے کے لیے تیار ہیں۔ کیئر سٹارمر کی عمر 61 برس ہے۔ سٹارمر انسانی حقوق کے سابق وکیل ہیں۔ انہوں نے نو سال قبل رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے سے قبل اٹارنی جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ وزیر اعظم بننے والے ہیں کیونکہ یہ عہدہ عام طور پر اس سیاسی جماعت کے سربراہ کے پاس ہوتا ہے جو قانون ساز انتخابات میں اکثریت حاصل کرتی ہے۔

کیئر سٹارمر نہ تو کرشماتی ہیں نہ ہی بہت مقبول ہیں ۔ وہ احتیاط سے آگے بڑھے اور انتخابی مہم کے دوران بھی ابہام برقرار رکھا۔ وہ کنزرویٹو پر اپنی پارٹی کی 20 نکاتی برتری کو برقرار رکھنے کے خواہاں رہے۔ ان کے وعدے بھی محدود رہے۔ انہوں نے خبردار بھی کیا کہ لیبر پارٹی کے پاس "جادو کی چھڑی" نہیں ہے۔ سٹارمر کے والد ایک آلے کے کارخانے میں کام کرتے تھے اور ان کی ماں ایک نرس تھی، وہ سیاست میں دیانتداری اور ایمانداری کی بات کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ ’’پہلے ملک، پھر پارٹی‘‘۔

فاراج کی وطن پرستی

فاراج ووٹروں کے لیے اہم خدشات میں پیش رفت چاہتے ہیں۔ ان خدشات میں معیشت، ہیلتھ سروسز کی تنزلی اور امیگریشن کے مسائل ہیں۔ برطانوی نیشنلسٹ ریفارم پارٹی اور اس کے رہنما نایجل فاراج، جو آٹھویں بار ہاؤس آف کامنز کے لیے منتخب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، نے اس آخری مسئلے یعنی امیگریشن کو اپنی انتخابی مہم کا مرکز بنایا اور اسے باقی ان تمام مسائل سے جوڑ دیاجن سے برطانیہ دوچار ہے۔ ان مسائل میں رہائش کی کمی، طبی علاج حاصل کرنے میں دشواری اور کچھ نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع کی کمی شامل ہیں۔ فاریج گزشتہ ماہ اس دوڑ میں شامل ہوئے جس کی وجہ سے ان کی پارٹی کے لیے ووٹنگ کے ارادے میں براہ راست اضافہ ہوا۔

اس 60 سالہ سابق یورپی رکن پارلیمنٹ، جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کرتے ہیں اور ہمیشہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کی حمایت کرتے رہے ہیں، کے لندن کے مشرق میں واقع ساحلی شہر کلاکٹن آن سی میں منتخب ہونے کا اچھا موقع ہے۔

Watch Live Public News