بابری مسجد کی شہادت کے 29 برس مکمل

بابری مسجد کی شہادت کے 29 برس مکمل
نئی دہلی: ( پبلک نیوز) بابری مسجد کی شہادت کو 29 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ اس مسجد کو 6 دسمبر 1992ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی قیادت میں ہندو بلوائیوں نے اس وقت کی کانگریس حکومت کی خاموش منظوری کے ساتھ شہید کیا تھا اور اس طرح بھارت کا انتہا پسند چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا۔ ایودھیا میں 16ویں صدی کی بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوئوں نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت سے زیادہ اذیت ناک بات بھارت کی اعلیٰ عدلیہ کا جانبدارانہ کردار ہے جس نے نومبر 2019ء میں ہندوئوں کو تاریخی بابری مسجد کے مقام پر مندر بنانے کی اجازت دی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے ہندوتوا نظریے کو ترجیح دی۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ایل کے ایڈوانی جیسے بی جے پی کے رہنمائوں کو بھی بری کر دیا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے جانبدارانہ فیصلے نے بھارت کو ہندو ملک میں تبدیل کرنے کی توثیق کی جو مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ایودھیا کا فیصلہ انصاف کے تمام ضابطوں اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج چیف جسٹس گوگوئی کو بابری مسجد کیس میں فیصلہ سنانے پر انعام دیا گیا جو بی جے پی کی ایک اہم نظریاتی وابستگی کے مطابق تھا۔ بابری مسجد کیس میں ہندوئوں کے حق میں فیصلہ دینے کے بعد بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے انہیں راجیہ سبھا کا رکن منتخب کیا تھا۔ بھارت میں خاص طور پر مودی کے دور میں ہندوتوا قوتیں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کی مسلسل توڑ پھوڑ کر رہی ہیں۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی نے بھارت میں ہزاروں مساجد کو مسمار کرنے اور ان کی جگہ مندر بنانے کے لئے اپنے نشانے پر رکھا ہے۔ یہاں تک مسلمانوں کے ناموںسے منسوب اداروں، مقامات اور شاہراہوں کے نام بھی ہندوئوں کے ناموں پر رکھے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے حالات اس قدر بدتر ہو چکے ہیں کہ بھارت میں جانوروں کو بھی مسلمانوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ انہیں گائے کا گوشت کھانے اور مویشیوں کی نقل و حمل کے بہانے دن دہاڑے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس نظریات کی حامل بی جے پی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنا رہی ہے جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے جو پہلے ہی بھارت اورمقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی ممکنہ نسل کشی کے بارے میں خبردار کر چکی ہے۔