شامی باغیوں نے حکومت کاتختہ الٹ دیا،بشارالاسد ملک سے فرار

شامی باغیوں نے حکومت کاتختہ الٹ دیا،بشارالاسد ملک سے فرار
کیپشن: شام: بشارالاسد فرار، باغیوں کا دارالحکومت پر قبضے کا دعویٰ

ویب ڈیسک: شام کے باغیوں نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کردیا ہے۔ جس کے بعد فوج نے وزارت دفاع کاہیڈ کوارٹرز بھی خالی کردیا ہے۔ باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے حکومتی تختہ الٹ دیا ہے جس کے بعدبشار الاسدملک سے فرار ہوگئے ہیں۔ 

تفصیلات کے مطابق بشار الاسد طیارے پر سوار ہوکر دمشق سے نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئےہیں۔ دوسری جانب قطری میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کی افواج دمشق کے داخلی راستوں سے پیچھے ہٹ گئیں۔ باغیوں کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق سرکاری میڈیا ٹی وی اور ریڈیو  کی عمارت کا کنٹرول بھی باغیوں نے سنبھا لیا ہے۔ شام کی حکومت کا فوری رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

شامی صدر کے فرار ہونے کے بعد شہریوں کا جشن: 

شامی صدر بشارالاسد کے ملک سے فرار ہوجانے اور باغیوں کی جانب سے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کیے جانے کے بعد شہری سڑکوں پر نکل آئے اورصدر کے طویل اقتدار کے اختتام پر جشن منایا۔ 

شہریوں نے جشن منا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اس موقع پرسڑکوں پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔

شام کے حالات پربغور نظر رکھنے والی میلبورن یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات دارا کونڈوئٹ نے کہا کہ شام کے صدر بشار الاسد کی فوج کو برسوں کی جنگ نے تباہ کر دیا ہے۔

کنڈیٹ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ اسد کے اہم اتحادی - روس، ایران اور حزب اللہ بھی اپنے اپنے تنازعات میں مصروف ہیں۔

وہ کہتی ہیں، "اب، اسد خاصے کمزور پوزیشن میں ہیں۔پھر بھی، راتوں رات جو کچھ ہوا وہ "ناقابل یقین ہے"۔

شام کے تیسرے سب سے بڑے شہر حمص پر باغی افواج کے قبضے کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اورپھر اطلاع ملی کہ اسد ہوائی جہاز کے ذریعے کسی نامعلوم مقام پر روانہ ہو گیا ہے۔

شامی باغیوں کا سرکاری ٹی وی پر فتح کا اعلان، تمام قیدیوں کیلئے عام معافی

شامی باغیوں نے دارالحکومت پر قبضے کے بعد سرکاری ٹی وی پر پہلے ہی خطاب میں تمام قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔

عرب میڈیا کے مطابق شامی باغیوں نے اپنی فتح کا اعلان سرکاری ٹی وی پر کرتے ہوئے بتایا کہ شام سے بشار الاسد حکومت کے طویل دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ پہلے خطاب میں شامی باغیوں کے رہنما ابومحمد الجولانی نے کہا کہ شام میں سیاہ دور کا خاتمہ کرنے کے بعد نیاعہد شروع ہونے جارہا ہے، شام کی تمام سرکاری،غیر سرکاری املاک اورتنصیبات کا تحفظ کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیلوں سے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا،عوام اور سابق حکومت کے فوجی سرکاری اداروں سے دور رہیں، سرکاری ادارے اس وقت سابق وزیراعظم کی نگرانی میں ہیں، شام میں ہوائی فائرنگ سختی سے منع ہے۔ 

صدربشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کا پلان تیار:

عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ شامی سٹیک ہولڈرزنے بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کا پلان تیارکر لیا، مجوزہ پلان کے مطابق بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کےبعد عبوری حکومت تشکیل دی جائیگی، عبوری حکومت 9 ماہ کے اندر صدارتی و پارلیمانی انتخابات کرانے کی پابند ہوگی۔

دوسری جانب امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہےکہ شامی صدر بشارالاسد دمشق میں نہیں ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق شامی صدارتی محل نے کہا ہےکہ صدر ملک میں ہی ہیں تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ شامی صدر دمشق میں کسی بھی ایسے مقام پر نہیں ہیں جہاں ان کے ہونے کی توقع ہو۔

باغیوں کافوجی جیل پر قبضہ:

باغیوں نے حمص کے سینٹرل جیل پر قبضہ کر لیا ہے۔ جس کے بعد متعدد قیدیوں کو رہا کروالیا گیا ہے۔ 

اتوار کو ایک بیان کے مطابق، بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دمشق کے شمال میں واقع بدنام زمانہ عقوبت خانےکا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2017 کی ایک رپورٹ میں فوجی جیل کو "انسانی ذبح خانہ" کا نام دیا تھا۔

جولائی 2023 میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی ایک رپورٹ میںفوجی جیل سمیت شامی حراستی مراکز کے اندر "تشدد اور ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک کے جاری وسیع اور منظم نمونوں، جبری گمشدگیوں" پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

عوام کیجانب سے منتخب قیادت کے ساتھ تعاون کو تیار ہیں،شامی وزیراعظم

شام کے وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے اتوار کی صبح ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ حکومت "عوام کی جانب سے منتخب کردہ کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہم کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں جسے عوام منتخب کرتے ہیں، حکومتی کاموں کی ہموار اور منظم منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کرتے ہیں، ریاستی سہولیات کو محفوظ رکھتے ہیں۔"

غازی الجلالی نے شامیوں سے عوامی سہولیات کی حفاظت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق تمام شہریوں سے ہے۔

"ہم ہر اس شامی شہری کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں جو اس ملک کے اثاثوں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہے۔ میں تمام شہریوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کسی بھی عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں کیونکہ بالآخر یہ انہی کا ہے۔"

شام کے تاریک دور کا خاتمہ ہوگیا: سربراہ شامی اتحاد

شامی انقلاب اور اپوزیشن فورسز کے قومی اتحاد کے سربراہ ہادی البحرا نے خبر رساں ادارے العربیہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ’ شام کے تاریک دور‘ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

انہوں نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ دمشق میں صورتحال محفوظ ہے اور کہا کہ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام افراد جو کسی دوسرے شہری کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے اور اپنے گھروں میں رہیں گے، بنا کسی فرقہ وارانہ یا مذہبی تفریق کے وہ محفوظ ہیں۔

تحریرالشام کے سربراہ محمد الجولانی کا فورسز کو حکم:

شام کے عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اتوار کو فورسز کو حکم دیا ہے کہ وہ دمشق میں سرکاری اداروں تک رسائی حاصل نہ کریں۔

انہوں نے کہا ہے کہ یہ ادارے اس وقت تک وزیراعظم کے ماتحت رہیں گے جب تک انہیں ’سرکاری طور‘ پر ان کے حوالے نہیں کیا جاتا۔

ابو محمد الجولانی نے ٹیلی گرام میں اپنے بیان میں کہا کہ ’دمشق شہر میں تمام عسکری دستوں کے لیے سرکاری اداروں تک رسائی کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہ (ادارے) سابق وزیراعظم کی زیرِ نگرانی رہیں گے جب تک کہ انہیں باضابطہ طور پر حوالے نہیں کیا جاتا۔‘

انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ ’ہوائی فائرنگ کرنا منع ہے۔‘

باغی گروہ ہیئت تحریر شام کا کہنا ہے کہ وہ ’کسی بھی صورت میں‘ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کریں گے۔

روسی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ باغی گروہ ہیئت تحریر شام کے عسکری آپریشن کی ’منصوبہ بندی لمبے عرصے پہلے کی گئی تھی۔‘

اقوامِ متحدہ کے نمائندہ برائے شام گیئر پیڈرسن نے مطالبہ کیا ہے کہ شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے سکیورٹی کونسل کی قرارداد کے تحت ’فوری سیاسی مذاکرات‘ ہونے چاہییں۔

دمشق کے ہوائی اڈے پر افراتفری:

اتوار کی صبح مقامی وقت کے مطابق دمشق کے ہوائی اڈے کے اندر افراتفری کے مناظر سامنے آئے، جب شامی باغی افواج نے دارالحکومت میں بجلی کی چمک سے پیش قدمی جاری رکھی۔

سی این این کے ذریعے تصدیق شدہ فوٹیج میں درجنوں افراد کو تیزی سے سکیورٹی چوکیوں سے گزرتے اور ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں روانگی کے دروازوں کی طرف بھاگتے ہوئے دکھایا گیا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہوائی اڈہ بڑی حد تک غیر عملہ ہے اور پروازوں کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹس نے کوئی آسنن روانگی کا شیڈول نہیں دکھایا۔

اتوار کی صبح مقامی وقت کے مطابق دمشق کے ہوائی اڈے کے اندر افراتفری کے مناظر سامنے آئے، جب شامی باغی افواج نے دارالحکومت میں بجلی کی چمک سے پیش قدمی جاری رکھی۔

سی این این کے ذریعے تصدیق شدہ فوٹیج میں درجنوں افراد کو تیزی سے سکیورٹی چوکیوں سے گزرتے اور ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں روانگی کے دروازوں کی طرف بھاگتے ہوئے دکھایا گیا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہوائی اڈہ بڑی حد تک غیر عملہ ہے اور پروازوں کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹس نے کوئی آسنن روانگی کا شیڈول نہیں دکھایا۔

روسی وزیرخارجہ کا ردعمل: 

روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے شام کی حالیہ صورتحال پر اپنے مؤقف میں کہا ہے کہ شام میں جنگجوؤں کے حملوں کو ناکام بنایا جائے گا۔ شام  میں اپوزیشن سے مذاکرات کو بحال کیا جائے گا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ جنگجو شام میں حقائق  کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر بشار الاسد کو جنگجوؤں کے خلاف ہر ممکن امداد دی جائے گی۔

ایران کا موجودہ صورتحال پر ردعمل: 

ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شام کی صور حال کے خطے پر منفی اثرات ہوں گے۔ شام میں کشیدگی دوسرے ممالک میں عدم استحکام کا باعث بنے گی۔ شام میں امن کی بحالی کیلئے جنگجوؤں کو شدید رد عمل کا سامنا ہو گا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں ہزاروں جنگجو شامی شہری نہیں۔

ایران کی دخل اندانی کا مشرق وسطیٰ سے خاتمہ:امریکا

ایک امریکی اہلکار نے CNN کو بتایا کہ شام میں ہونے والے واقعات پورے مشرق وسطیٰ میں " ایران کی دخل اندازی" کے خاتمے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ایران کے حمایت یافتہ اسد کی ممکنہ گراوٹ گزشتہ 14 ماہ کے دوران اسرائیل کے ساتھ تنازعات میں تہران کی اہم پراکسیوں حزب اللہ اور حماس کے خاتمے کے بعد ہوگی۔

ایک بیان کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن شام میں پیش رفت پر "قریب سے نگرانی" کر رہے ہیں۔

"صدر بائیڈن اور ان کی ٹیم شام میں ہونے والے غیر معمولی واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں،" قومی سلامتی کونسل کے ترجمان شان سیویٹ نے X پر لکھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا شام کی صورتحال پر بیان:

نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا کو شام کی جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بہتر ہے امریکی حکومت اس مسئلے سے دور رہے۔

ٹرمپ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ شام ہمارا دوست نہیں انہیں لڑنے دو،اس گندے کھیل کا حصہ مت بنو۔

ابو محمد الجولانی کون ہیں؟
ابو محمد الجولانی شام کی مسلح اپوزیشن تنظیم حیات تحریر الشام کے سربراہ ہیں اور ان کا اصل نام احمد حسین الشرا ہے جو سن 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ ابو محمد الجولانی کے والد ایک پیٹرولیم انجینئر تھے اور ان کا خاندان 1989 میں شام واپس آیا جہاں وہ دمشق کے قریب رہائش پزیر ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق دمشق میں گزرے وقت کے بارے میں ان کے حوالے سے زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن رپورٹس سے پتہ چلا کہ 2003 میں وہ عراق منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اسی سال امریکا کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے طور پر القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔

بعد ازاں ابو محمد الجولانی 2006 میں عراق میں امریکی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے جنہوں نے انہیں 5 سال تک قید میں رکھا۔ پھر رہائی ملنے کے بعد الجولانی کو شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم ’النصرہ فرنٹ‘ کی ذمہ داری سونپی گئی، جس نے خاص طور پر ادلب میں مخالف قوتوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اپنا اثر بڑھایا۔

رپورٹس کے مطابق ابتدائی سالوں میں الجولانی کی جانب سے ابو بکر البغدادی کے ساتھ کام کیا گیا، جو عراق میں القاعدہ کے اسلامی ریاست کے سربراہ تھے جسے بعد میں داعش کے نام سے پکارا جانے لگا۔

پھر اپریل 2013 میں البغدادی نے اچانک اعلان کیا کہ ان کی تنظیم القاعدہ سے تعلق ختم کر رہی ہے اور شام جا رہی ہے، جس سے النصرہ فرنٹ کو ایک نئی تنظیم داعش میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم ابو الجولانی نے اس تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے القاعدہ کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھی۔

2014 میں اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں الجولانی نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ شام میں اسلامی قانون نافذ ہوگا اور ملک کی اقلیتوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ الجولانی اس منصوبے سے دور ہوتے نظر آئے اور اس کی بجائے وہ شام کی سرحدوں کے اندر اپنے گروپ کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرتے دکھائی دیے۔

پھر جولائی 2016 میں شام کا شہر حلب پر حکومت نے قبضہ کرلیا اور وہاں موجود مسلح گروہ ادلب کا رخ کرنے لگے، اس کے بعد الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کے گروپ کا نام بدل کر جبہت فتح الشام کر دیا گیا ہے۔

2017 کے اوائل تک ہزاروں جنگجو حلب سے فرار ہو کر ادلب پہنچے اور الجولانی نے اعلان کیا کہ ان گروپوں میں سے کئی کو اپنے گروپ کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے اور اسے حیات تحریر الشام کا نام دیا گیا۔

باغی گروہ حیات تحریر الشام کا واضح مقصد شام کو صدر بشارالاسد کی آمرانہ حکومت سے آزاد کرانا، ملک سے ایرانی ملیشیاؤں کو نکالنا،ایک اسلامی قانون کے تحت ریاست قائم کرنا ہے۔

گزشتہ دنوں ابو محمد الجولانی نے شام کے ایک نامعلوم مقام سے امریکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا تھا اس حکومت کی شکست کے بیج ہمیشہ سے اس کے اندر تھے، ایران نے اس حکومت کو بحال کرنے اور اس کے لیے مزید وقت لینے کوشش کی جب کہ روس نے بھی اسے سہارا دینے کی کوششیں کی مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ حکومت مر چکی ہے۔

باغی لیڈر نے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے جیسے ہی موجودہ حکومت گرے گی تو شام میں غیر ملکی افواج کی ضرورت نہیں ہے گی۔

شام کے باغیوں کا گروپ کون ہے؟

شام کا باغی اتحاد اسلام پسند اور اعتدال پسند دھڑوں پر مشتمل ہے جو اپنے اختلافات کے باوجود اسد حکومت، داعش اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے خلاف لڑنے میں متحد ہیں۔

اتحاد بنانے والے گروپوں میں سے کچھ یہ ہیں:

حیات تحریر الشام (HTS): گروپوں میں سب سے نمایاں اور مضبوط گروپ HTS ہے، جسے آرگنائزیشن فار دی لبریشن آف دی لیونٹ بھی کہا جاتا ہے۔ HTS کی بنیاد ایک فوجی کمانڈر ابو محمد الجولانی نے رکھی تھی جس نے عراق میں امریکہ کے خلاف القاعدہ کے لیے ایک نوجوان جنگجو کے طور پر تجربہ حاصل کیا تھا۔

اس نے القاعدہ کی شام سے منسلک جبہت النصرہ بنائی، اور نظریاتی اختلافات اور آئی ایس آئی ایس کی مخالفت پر 2016 میں عوامی تقسیم تک اس گروپ کو چلایا۔ جولانی نے 2017 میں ایچ ٹی ایس کی تشکیل کی۔

HTS کو القاعدہ اور ISIS سے دور کرنے کی جولانی کی کوششوں کے باوجود، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اسے 2018 میں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اس پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا۔

سیریئن نیشنل آرمی (SNA): "Syrian National Army" مختلف نظریات کے حامل درجنوں دھڑوں کو شامل کرتی ہے جو ترکی سے فنڈنگ ​​اور اسلحہ وصول کرتے ہیں۔

اس اتحاد میں احرار الشام جیسے دھڑوں پر مشتمل نیشنل لبریشن فرنٹ بھی شامل ہے جس کا بیان کردہ مقصد "(الاسد) حکومت کا تختہ الٹنا" اور "شرعی قانون کے تحت ایک اسلامی ریاست کا قیام" ہے۔

پیچیدہ معاملات یہ ہیں کہ باغی اتحاد کے کچھ ارکان کرد فورسز سے بھی لڑ رہے ہیں۔

ترکی کی حمایت یافتہ فری سیریئن آرمی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے حلب گورنری کے شمالی حصے میں تل رفعت شہر اور دیگر قصبوں اور دیہاتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

وہ علاقے پہلے اسد کی حکومت کے پاس نہیں تھے بلکہ کثیر محاذ خانہ جنگی میں ملوث ایک اور دھڑے کے پاس تھے: سیریئن ڈیموکریٹک فورسز۔

SDF زیادہ تر کرد جنگجوؤں پر مشتمل ہے جسے پیپلز پروٹیکشن یونٹس (YPG) کہا جاتا ہے، جسے ترکی ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے۔

ایک مقامی کارکن گروپ نے سی این این کو بتایا کہ شام کے جنوب میں، ملک کی ڈروز مذہبی اقلیت کے جنگجو بھی لڑائی میں شامل ہو گئے ہیں۔

دروز جنوبی شہر اسسویدہ میں لڑ رہے ہیں، جو درعا صوبے کے ہمسایہ ہے، جہاں اپوزیشن فورسز نے درعا شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

Watch Live Public News