پیکا ترمیمی آرڈیننس غیر قانونی قرار

پیکا ترمیمی آرڈیننس غیر قانونی قرار
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیی آرڈیننس کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ جاری کر دیا. اسلام آباد نے پیکا ترمیمی آرڈیننس غیر قانونی قرار دیدیا. اسلام‌آباد ہائی کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ آزادی اظہار بنیادی حق،یہ حق آئین کے تحت دیگر حقوق کی تحفظ دیتا ہے، آرٹیکل 19 کے تحت معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے تقریر ضروری ہے، تقریر کی آزادی کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری روایات کے برعکس ہے. اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ پیکا آرڈیننس کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے ، درخواست گزاروں کے خلاف کارروائی متصل درخواستوں میں نتیجتاً ایک باطل ہے اور اس طرح منسوخ کر دیا جاتا ہے تاہم، متاثرہ شکایت کنندگان کو ہتک عزت کے تناظر میں متعلقہ قوانین کے تحت فراہم کردہ علاج سے فائدہ اٹھانے کی آزادی ہوگی. فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین، خاص طور پر ہتک عزت آرڈیننس 2002 کا جائزہ لے گی، توقع ہے کہ وفاقی حکومت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو مناسب قانون سازی کی تجویز دے گی، سیکرٹری، وزارت داخلہ، حکومت پاکستان فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے طرز عمل کی تحقیقات کرے گا، جس کی وجہ سے اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا اور اس کے نتیجے میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔ فیصلے میں کہا گیا عدالت توقع کرتی ہے کہ سیکریٹری، وزارت داخلہ آرڈر کی مصدقہ کاپی موصول ہونے کی تاریخ سے 30 دنوں کے اندر تحقیقات مکمل کرے گا، توقع ہے سیکرٹری داخلہ مجرم اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے بارے میں رجسٹرار کو مطلع کرے گا. اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی۔ ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور ان کو ہی پامال بھی کیا گیا، آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی اور وہ سیکشن لگائے جو لگتے ہی نہیں تھے، وہ سیکشن صرف اس لیے لگائے گئے تاکہ عدالت سے بچا جا سکے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا یہ بتا دیں کہ کیسے اس سب سے بچا جا سکتا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے کہا کہ قانون بنا ہوا ہے، اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے، یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا؟ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کارروائی کیسے بنتی ہے؟ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا یہ تاریخ ہے، لوگ باتیں کریں گے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پیکا ترمیمی آرڈیننس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔