ویب ڈیسک : افغانستان کے لیے بھارت کے خصوصی نمائندے جے پی سنگھ نے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے کابل میں ملاقات کی ہے اور ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے تجارت بڑھانے پر بات کی.
یہ ملاقات اس تناظر میں اہم قراردی جارہی ہے جب افغان تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے عائد پابندیوں، افغانستان کے ساتھ اس ملک کی سرحدی گزرگاہوں کی وقفوں میں بندش اور راہداری ٹیکس میں اضافے کے بعد انھوں نے اب متبادل روٹس کی تلاش شروع کردی ہے ۔
خیبرپختونخوا میں افغانستان پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اور کابل میں افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اُن کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں میں بڑے ٹرانزٹ اور تجارتی راستے پاکستان سے ایران منتقل ہوئے ہیں.
افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن خانجان الکوزی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان سے ایران تک ٹرانزٹ روٹ میں تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد نے ’تقریباً پانچ ماہ قبل‘ ایک نیا ٹیکس لگایا تھا جو افغان تاجروں کی آمد و رفت پر تھا۔
طالبان کی وزارت تجارت نے پاکستان سے ایران کے تجارتی راستے کی بڑی تبدیلی کے اس عمل پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا، لیکن وزارت تجارت کے مطابق حال ہی میں اس کی ایران کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ہونے والی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد سے پاکستان کے ساتھ کشیدہ سیاسی صورتحال کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے جس کے بعد افغان تاجر تجارت کے لیے ایران اور وسطی ایشیا کے متبادل راستوں کا رُخ کر رہے ہیں۔