ویب ڈیسک: آئینی ترامیم کی منظوری کا معاملہ، حکومت نے مولانا فضل الرحمان کی تجویز مان لی۔
تفصیلات کے مطابق پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہےکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس ایس سی او سربراہ کانفرنس کے بعد بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیم پر اپنا مسودہ دو سے تین دن میں حکومتی ٹیم کے حوالے کرینگے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قانونی ٹیم اپنا مسودہ جے یو آئی ف سے شئیر کرے گی،مولانا نے آئینی عدالت کے قیام پر مشروط رضا مندی ظاہر کی ہے۔
پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ججز تقرری کے طریقہ کار سمیت دیگر امور پر ترامیم بعد میں لائی جائیں گی،پہلے مرحلے میں آئینی عدالت کے قیام اور اس کے ججز کے تقرر اور اختیارات سے متعلق ترمیم لائی جائے گی۔
جے یو آئی ف کا مسودہ برائے آئینی ترامیم کیا ہے؟
جے یو آئی ف کے ذرائع کے مطابق آئینی ترامیم کے لیے تجاویز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ ن سمیت تمام جماعتوں کے ساتھ شیئر کی جائیں گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف سے بھی آئینی ترامیم کے لیے تجاویز مانگی گئی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے لیے جے یو آئی ف کے تجویز کردہ مسودے میں ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد بڑھانے کی تجویز شامل نہیں ہے جبکہ آرٹیکل 8، فوجی عدالتوں، ہائیکورٹس کے ججوں کے تبادلوں اور آئینی عدالت کے قیام کی تجاویز کو بھی حذف کردیا گیا ہے۔
جے یو آئی ف کی تجویز کردہ آئینی ترامیم میں کسی بھی قسم کی قانون سازی خواہ قومی یا صوبائی اسمبلی سے منظور کروانے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لینا ضرور قرار دی گئی ہے۔
مسودے میں آئینی عدالت کے بجائے سپریم کورٹ میں 5 رکنی آئینی بینچ کی تشکیل کی تجویز ہے جو چیف جسٹس آف پاکستان اور 4 سینیئر ججوں پر مشتمل ہوگا۔ جے یو آئی کی تجاویز میں ججوں کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کو بااختیار بنانے کی تجویز ہے جس میں پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ججوں کی تقرری میں جوڈیشل کمیشن کی رائے کو مسترد کرسکتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان ترامیم کا مقصد عدالتوں میں اصلاحات لانا ہے، جس کے لیے جے یو آئی تمام اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعد متفقہ طور پر آگے بڑھے گی۔
ذرائع کے مطابق جے یو آئی نے آئینی ترامیم سے متعلق اپنے مسودے میں ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 68 سال تک بڑھانے اور ملٹری کورٹس کی تشکیل کی تجویز مسترد کردی ہے جبکہ علیحدہ سے آئینی عدالت کا قیام بھی جے یو آئی کی تجاویز میں شامل نہیں۔