لاہور: ( پبلک نیوز) کیا طیاروں کے ٹائروں میں عام ہوا بھری جاتی ہے یا کوئی خاص گیس؟ کمرشل جیٹ کے ٹائرز کتنی بار لینڈنگ کرا سکتے ہیں؟ ان کی کتنی بار مرمت کی جاتی ہے؟ ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت طیاروں کی سپیڈ کتنی ہوتی ہے؟ ناکارہ ہونے پر ان کا کیا بنایا جاتا ہے؟ چھوٹے طیارے کو اڑانے کے لئے کم از کم کتنی سپیڈ برقرار رکھنی ضروری ہوتی ہے؟ لینڈنگ اور ٹیک آف کے وقت جہاز کے اندر کی لائٹس کیوں مدھم کر دی جاتی ہیں؟ کمرشل طیارے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر ہی کیوں پرواز کرتے ہیں؟ ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت ان کی اسپیڈ کتنی ہوتی ہے؟ بڑے کمرشل طیارے عموماً کس سپیڈ پر فلائی کرتے ہیں؟ جانتے ہیں ان سوالوں کے جواب۔ لینڈنگ کسی بھی پرواز کا حساس اور مشکل ترین وقت ہوتا ہے۔ لینڈنگ کا سارا بوجھ جہاز کے ٹائرز سہتے ہیں۔ عام طور پر مسافر طیاروں کا وزن 5 لاکھ پاؤنڈز یا 2 لاکھ 26 ہزار 796 کلو گرام ہوتا ہے۔ لینڈنگ کے وقت ان کی سپیڈ 241 سے 274 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ مگر جہاز کے ٹائر اتنے سخت جان اور مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ یہ سب برداشت کر لیتے ہیں پر پھٹتے نہیں۔ 45 انچز ربڑ کے ان ٹائروں کو بنانے میں سٹیل ایلومینیم ، نائیلون اور ایرامیڈ فیبرکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بنانے کے بعد انہیں ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ ان پر 38 ٹن وزن ڈالا جاتا ہے۔ پتا ہے 38 ٹن کتنا ہوتا ہے؟ 34 ہزار 473 کلوگرام۔ اور یہ اس ٹیسٹ کو بھی آسانی سے پاس کر لیتے ہیں۔ ان ٹائروں کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں بلاکس کے بجائے دھاریاں ہوتی ہیں۔ وہ اس لیے کہ اگر رن وے بارش کی وجہ سے گیلا بھی ہو تو ان کی گرپ مضبوط رہتی ہے اور جہاز سلپ نہیں ہوتا۔ کمرشل جیٹس میں عموماً 20 کے قریب ٹائرز ہوتے ہیں۔ یہ ٹائرز بغیر کسی مرمت کے 500 بار جہاز کو لینڈ کرا سکتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں مرمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی 7 بار تک مرمت کی جا سکتی ہے اور پھر اس کے بعد انہیں اتار لیا جاتا ہے۔ یہ طیارے کے لئے تو ناکارہ ہوجاتے ہی مگر حقیقت میں نہیں۔ اس کے بعد انہی ٹائروں کو ری سائیکل کرکے ٹریکٹرز اور دیگر وہیکلز کے ٹائرز بنا لئے جاتے ہیں۔ جہاز کے ٹائرز میں عام ہوا کے بجائے نائٹروجن گیس بھری جاتی ہے۔ نائٹروجن ایسی ڈھیٹ گیس ہے کہ اس پر زیادہ دباؤ اور ٹمپریچر کا اثر بہت کم ہوتا ہے۔ جہاز کے ٹائرز میں نائٹروجن کی مقدار ٹرک کے ٹائرز میں بھری جانے والی ہوا سے 2 گنا جبکہ کار کے ٹائرز سے 6 گنا ہوتی ہے۔یہ ہیں وہ وجوہات جو طیاروں کے ٹائروں کو لینڈنگ کے وقت پھٹنے نہیں دیتیں۔ اب اس سوال کا جواب کہ لینڈنگ اور ٹیک آف کے وقت جہاز کے اندر کی لائٹس کیوں مدھم کر دی جاتی ہیں؟ اس کی وجہ ہے ہماری آنکھیں۔ ہماری آنکھوں کو اندھیرے میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے 10 سے 30 منٹس لگ سکتے ہیں۔ یہ وقت نہایت قیمتی ہے۔ اگر طیارے میں کوئی مسئلہ ہو جائے اور باہر نکلنا ہو تو یہ ڈِم لائٹس بہت کام کرتی ہیں۔ اور وہ ایسے کہ اگر فُل لائٹس آن ہوں اور ایمرجنسی کی صورتحال پیش آ جائے اور اس کے بعد طیارے کی لائٹ بھی چلی جائے تو پھر باہر کیسے نکلا جائے گا؟ کیونکہ ایک دم اندھیرا ہونے سے آنکھیں اس سے ہم آہنگ نہیں ہو سکیں گی۔ کچھ نظر نہیں آئے گا اور شدید نقصان ہونے کے چانسز ہوں گے۔ اس کے علاوہ لائٹس مدھم یا بند ہونے پر ایمرجنسی پاتھ لائٹس اور اشارے بھی آسانی سے نظر آ جاتے ہیں۔ عام طور پر ٹیک آف کے وقت کمرشل طیاروں کی سپیڈ 240 سے 285 کلومیٹرز فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ زیادہ تر کمرشل جیٹس 35 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہیں۔ یہ بلندی 6 اعشاریہ 62 میل، 10 اعشاریہ 6 کلومیٹرز اور 10 ہزار 600 میٹرز بنتی ہے۔ کیا آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ مسافر طیارہ بس اسی بلندی تک جا سکتا ہے، اسی لئے 35 ہزار فٹ کی ہائٹ پر اڑتا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ 35 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوا کی رگڑ کم ہو جاتی ہے۔ یوں ایندھن کم خرچ ہوتا ہے اور پیسوں کی بچت ہوتی ہے۔ ویسے جہاز 42 ہزار فٹ سے بھی زائد بلندی پر پرواز کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا اس لئے خطرناک ہوتا ہے کہ اس بلندی پر آکسیجن بہت کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انجن میں خرابی آ سکتی ہے۔ بڑے کمرشل طیاروں کی عمومی سپیڈ 933 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اور آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ چھوٹے جہاز کو کم از کم 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنا ہوتا ہے۔ اگر سپیڈ اس سے کم ہو جائے تو یہ بلندی برقرار نہیں رکھ سکے گا اور نیچے آگرے گا۔