جنرل ہیڈکوارٹرز ( جی ایچ کیو) کی جانب سے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لئے رینجرز ، پاک افواج اور فرنٹیئر فورس ( ایف سی) کے دستے فراہم کرنے سے معذرت کرلی گئی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق جی ایچ کیو کی جانب سے وزارت دفاع کو موصول جواب کے بعد وزارت داخلہ نے باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط لکھ کر آگاہ کردیا ہے۔ خط میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبوں میں انتخابات کے دوران اہلکاروں کی تعیناتی ممکن نہیں ہے ، صرف راجن پور میں ضمنی انتخاب کے لئے رینجرز موجود رہے گی ۔ وزارت دفاع کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار ملک کی اندرونی اور بارڈر سیکیورٹی پر مامور رہیں گے اور 27 فروری سے 3 اپریل تک ڈیجیٹل مردم شماری میں بھی مصروف ہی ہوں گے ۔ الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں پشاور بم دھماکے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ حالیہ دہشت گردی واقعات کے بعد سیکیورٹی صورت حال ٹھیک نہیں ہے ، سیکیورٹی فورسز دہشت گردی سے نمٹنے میں مصروف ہیں ، آپریشن کے باعث سیکیورٹی اداروں کو کہیں اور لگانے کی گنجائش نہیں ہے ، دہشت گرد گروپ نے سیاسی جماعتوں کو کھلے عام حملوں کی دھمکیاں بھی دیں ہیں ۔ خط کے متن میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کا خدشہ ہے، آرمی کے اہلکار مردم شماری کے لئے بھی سیکیورٹی فراہم کریں گے، اس سلسلے میں صوبائی
عام انتخابات اور 64 ضمنی الیکشن کے لئے فورسز کی فراہمی ممکن نہیں ہے ۔ خیال رہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان ( ای سی پی ) نے
عام انتخابات کے لئے وزارت دفاع سے رینجرز اور
پاک افواج کی تعیناتی کی درخواست کی تھی ۔
صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا ای سی پی کو خط اس سے قبل صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دینے کیلئے خط لکھا گیا تھا ۔
صدر مملکت نے خط میں لکھا تھا کہ آئین تاخیر کی اجازت نہیں دیتا ہے ، الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے الیکشن کا شیڈول فوری جاری کرے ، الیکشن کمیشن انتخابات کا اعلان کردے تاکہ قیاس آرائیوں پر مبنی پروپیگنڈے کو ختم کیا جاسکے ۔ خط میں یہ بھی درج تھا کہ انتخابات ملتوی یا ان میں تاخیر کرنے کا جواز فراہم کرنے والے حالات ملک میں نہیں ہیں ، حالیہ عالمی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ انتخابات کے التوا نے جمہوریت کو طویل مدتی نقصان پہنچایا ہے ، آئین اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں الیکشن کروانے پر زور دیتا ہے ۔ ڈاکٹر عارف علوی نے خط میں چیف الیکشن کمشنراور ممبران کو حلف کے مطابق بنیادی ذمہ داری کی یاد دہانی بھی کروائی اور کہا کہ آئین کا آرٹیکل 218 (3) الیکشن کمیشن کو انتخابات کو یقینی بنانے کا فرض تفویض کرتا ہے، الیکشن کمیشن فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہا ہے تو آئین کی خلاف ورزی کا ذمہ دار اور جوابدہ ٹھہرایا جائے گا ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا حوالہ دیتے ہوئے یہ لکھا کہ ابراہم لنکن نے 1864ء میں خانہ جنگی کے دوران بھی انتخابات کو معطل کرنے کا نہیں سوچا ہے ، دنیا کی پرانی جمہوریتوں نے جنگوں کے دوران بھی انتخابات میں کبھی تاخیر نہیں کی ہے ، امریکا میں 1812ء میں برطانیہ کے ساتھ جنگ کے باوجود انتخابات کا انعقاد بھی ہوا تھا ۔ خط میں مزید لکھا گیا کہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان کر کے آئینی قدم اٹھایا ہے ، آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا بنیادی اور لازمی فرض ہے۔