افغان طالبان بھی مسلمان طالبہ کے حق میں بول پڑے

افغان طالبان بھی مسلمان طالبہ کے حق میں بول پڑے
کابل: (ویب ڈیسک) طالبان حکومت کے نائب ترجمان نے انڈیا میں انتہا پسند ہندوئوں کے سامنے ڈٹ جانیوالی مسلمان طالبہ مسکان کے معاملے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ گذشتہ دنوں انڈین ریاست کرناٹک میں کالج جانے والی طالبہ مسکان کو انتہاء پسند ہندوئوں نے دھمکایا لیکن اس نے بھی ان کا دلیری سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں مسکان انتہا پسند ہندوئوں کے سامنے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہی ہے۔ اس نے ہراساں کرنے والوں کو جواب دیا کہ ایک نہتی مسلمان لڑکی بھی ان کے لئے کافی ہے۔ https://twitter.com/HabibiSamangani/status/1491276486384709632?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1491276486384709632%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Furdu.geo.tv%2Flatest%2F277120- اب اس افسوسناک واقعے پر طالبان حکومت کے نائب ترجمان انعام اللہ سمنگانی نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا میں برقع کیلئے مسلم لڑکیوں کی جدوجہد بتاتی ہے کہ یہ عرب، ایرانی، مصری یا پاکستانی ثقافت نہیں بلکہ یہ ایک اسلامی اقدار ہے، جس کا دنیا بھر میں مسلم خواتین خاص طور پر سیکولر ممالک میں مختلف انداز میں دفاع کر رہی ہیں۔ خیال رہے کہ انڈین ریاست کرناٹک میں طالبات کے حجاب پہننے کا تنازع اب ہر روز نیا شدت اختیار کر رہا ہے۔ منگل کو ایسی ہی کچھ ویڈیوز منظر عام پر آئی تھیں جن میں طلبہ کے درمیان پتھراؤ کے واقعات بھی دیکھے گئے تھے۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں انتہا پسند ہندوئوں کا ایک گروپ ایک لڑکی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔ وائرل ویڈیو میں کچھ لوگ حجاب پہنے لڑکی کے گرد جمع ہو کر نعرے لگا رہے ہیں۔ جواب میں باحجاب طالبہ نے بھی نعرہ تکبیر بلند کردیا۔ لڑکی نے بتایا کہ جن لوگوں نے اسے گھیرا ان میں کالج کے لوگوں کے علاوہ باہر کے لوگ بھی شامل تھے۔ ویڈیو میں کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں کالج کی پارکنگ میں ایک باحجاب طالبہ اپنی اسکوٹی پر داخل ہوتی ہے۔ بائیک پارک کرتے ہی درجنوں انتہا پسند ہندو طلبا گلے میں زعفرانی رنگ کا مفلر پہنے طالبہ کی جانب بڑھتے ہیں۔ https://twitter.com/KeypadGuerilla/status/1490931958687277056?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1490931958687277056%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fpublicnews.com%2F60615%2F باحجاب طالبہ نے ڈرنے کے بجائے جنونی لڑکوں کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کالج کی عمارت کی جانب بڑھنے لگی جب کہ جنونی ہجوم لڑکی کا پیچھا کرتا رہا اور شدید نعرے بازی کرکے ڈرانے کی کوشش کی۔رپورٹرز کو دیکھ کر طالبہ رک جاتی ہے اور بتایا کہ مجھے برقع پہن کر کالج میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ میں بہت مشکل سے اندر داخل ہوئی ہوں اور اب یہ لوگ جے شری رام کا نعرہ لگاتے میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کرناٹک میں باحجاب طالبات کو کالج میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی تاہم جب مسلم طلبا نے پوری ریاست میں احتجاج کیا تھا جس کے بعد باحجاب طالبات کو کالج میں داخل ہونے کی اجازت تو مل گئی تاہم انہیں علیحدہ کلاس رومز میں بٹھایا جا رہا ہے۔ انڈین میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلمان طالبہ مسکان کا کہنا تھا کہ’’ میں بالکل بھی پریشان نہیں تھی، دراصل ایسا ہوا کہ میں اپنی اسائنمنٹس جمع کروانا چاہتی تھی، اس لیے میں کالج میں داخل ہوئی، لیکن مجھے کالج میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ میں نے برقع پہن رکھا تھا۔ https://twitter.com/ndtv/status/1491030361131962373?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1491030361131962373%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fpublicnews.com%2F60621%2F مسکان نے بتایا کہ تاہم میں کسی طرح اندر آئی جس کے بعد ہجوم نے میرے سامنے جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کر دیے، اس کے بعد میں نے اللہ اکبر کے نعرے لگانے شروع کر دیے، ہجوم میں صرف 10 فیصد لڑکے کالج کے تھے اور باقی باہر سے تھے۔ اسکول کے پرنسپل اور اساتذہ نے میرا ساتھ دیا اور مجھے بھیڑ سے بچایا۔” طالبہ نے کہا کہ “یہ سارا معاملہ پچھلے ہفتے ہی شروع ہوا تھا۔ ہم ہر وقت برقع اور حجاب پہنتے تھے۔ میں کلاس میں حجاب پہنتی تھی اور برقع اتارتی تھی۔ حجاب ہمارا ایک حصہ ہے۔ پرنسپل نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ باہر والوں نے یہ سب ہنگامہ شروع کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرنسپل نے ہمیں برقع نہ پہننے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم حجاب کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے۔ یہ ایک مسلمان لڑکی کی شخصیت کا حصہ ہے۔ میرے ہندو دوستوں نے میرا ساتھ دیا، میں خود کو محفوظ سمجھتی ہوں۔ صبح سے ہر کوئی مجھے کہہ رہا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔”