ویب ڈیسک: برطانوی جیلوں سے ہزاروں قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے جو حکومت کی جانب سے ہجوم کم کرنے کا ایک اقدام ہے۔
حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز میں جیلوں کی آبادی اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔
لیکن رہائی پانے والے قیدیوں کے دوبارہ جرم کرنے کے بارے میں تشویش کی بنا پر حکومت نے اصرار کیا کہ کوئی بھی پر تشدد جرائم میں ملوث یا گھریلو تشدد و زیادتی کرنے والے افراد جلد رہائی کے اہل نہیں ہوں گے۔
وزیرِ کاروبار جوناتھن رینالڈز نے سکائی نیوز کو بتایا کہ 1,700 قیدیوں کو رہا کرنا "ایک مشکل فیصلہ" تھا۔
ڈاؤننگ سٹریٹ نے کہا ہے کہ پالیسی "معمولی جرائم" سے بچنے کے لیے ضروری تھی جہاں حال ہی میں سزا یافتہ مجرموں کو جیل کی سزاؤں سے بچایا گیا ہے کیونکہ وہاں جگہ دستیاب نہیں تھی۔
رینالڈز نے سابقہ کنزرویٹو حکومت پر الزام لگایا اور کہا کہ یہ فیصلہ "انتخابات سے پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔"
انہوں نے مزید کہا، "ان تمام سکینڈلز میں سے جو ہمیں ورثے میں ملے، میرے خیال میں جیل کا نظام، انصاف کا نظام شاید بدترین ہے۔"
چیف انسپکٹر پروبیشن مارٹن جونز نے بی بی سی ریڈیو کو بتایا کہ جیلوں پر دباؤ "انتہائی زیادہ" تھا۔
انہوں نے کہا، "یہ جیلوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے جو ہم نے اس ملک میں دیکھی ہے۔ جیلیں 100 فیصد گنجائش کے بالکل قریب ہیں۔ میرے خیال میں کل تک کے حساب سے 100 جگہیں باقی ہیں۔"
جونز نے خبردار کیا کہ "بعض افراد کا دوبارہ جرم کرنا یقینی " تھا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہر سال جیل سے رہا ہونے والے تقریباً ایک تہائی افراد ایک سال کے اندر مزید جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
رینالڈز نے اصرار کیا کہ جلد رہائی کے لیے "کوئی پرتشدد جرائم کا مجرم، کوئی گھریلو تشدد اور زیادتی کا مرتکب اہل نہیں ہوگا' اور مزید کہا، "ہم نے زیادہ تحفظ کا بندوبست کیا ہے۔"
حالیہ مہینوں میں انگلینڈ کے طول و عرض میں امیگریشن مخالف فسادات میں حصہ لینے کے جرم میں سزا پانے والوں کی وجہ سے جیل کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
حکومت نے کہا ہے کہ بدامنی میں ملوث افراد جلد رہائی کے منصوبوں سے خارج نہیں ہوں گے۔