حکومتی اتحاد نے سپریم کورٹ پروسیجر بل پر لارجر بینچ کا قیام مسترد کردیا

حکومتی اتحاد نے سپریم کورٹ پروسیجر بل پر لارجر بینچ کا قیام مسترد کردیا
اسلام آباد: حکومت میں شامل جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ پروسیر بل پر عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی بینچ کے قیام کو مسترد کردیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ حکمران جماعتوں نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل پرمتنازع بینچ تشکیل دینے کا اقدام مسترد کرتی ہیں ۔ اعلامیے کے مطابق اس نوعیت کا اقدام پاکستان اور عدالت کی تاریخ میں اس سے قبل پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ہے ، یہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی ساکھ ختم کرنے، انصاف کے آئینی عمل کو بے معنی کرنے کے مترادف ہی ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی تقسیم سے حکومت میں شامل جماعتوں کے مؤقف کی پھر تائید ہوئی ہے ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے کوئی جج بینچ میں شامل نہ کرنابھی افسوسناک ہے، حکمران جماعتیں اس اقدام کو پارلیمان اور اس کے اختیار پر شب خون قرار دیتی ہیں ، اس اقدام کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی ۔ حکمران جماعتوں کے اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ پارلیمان کا اختیار چھیننے اور اس کے دستوری دائرہ کار میں مداخلت کی کوشش کی مزاحمت کی جائے گی ، آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمان کے اختیار پر سمجھوتانہیں کیاجائے گا۔ مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ متنازع بینچ کی تشکیل سے نیت اور ارادے کے علاوہ آنے والے فیصلے کا بھی واضح اظہار ہوجاتا ہے ، بل کو سماعت کیلئے مقرر کرنے سے نیت اور ارادے کے علاوہ آنے والے فیصلے کا بھی واضح اظہار ہورہا ہے ۔ عدالت عظمیٰ کا بینچ خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی ہیں ۔ درخواستوں پر سماعت کیلئے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے کہ جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، ر جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی ، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں ۔ بل کی منظوری واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کر کے توثیق کیلئے صدر پاکستان کو بھیجا تھا تاہم صدر عارف علوی نے بل نظر ثانی کیلئے واپس اسپیکر کو بھیج دیا گیا تھا ۔ دو روز قبل حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروا لیا تھا اور اب بل کو دوبارہ صدر کے پاس بھیجا جائے گا، اگر صدر نے 10 روز کے اندر ، اندر بل کی منظوری نہ دی تو بل خود بخود قانون کا حصہ بن جائے گا ۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔