اسلام آباد: (ویب ڈیسک) اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ جہاد کے نام پر پاکستانی شہریوں نے سرحد کو عبور کیا، تاہم اب وقت آ چکا ہے کہ اس کو روکا جائے لیکن مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ اسے لاپتا کر دیا جائے۔ تفصیل کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لاپتا صحافی مدثر نارو کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ لاپتا جرنلسٹ کے اہلخانہ کی وزیراعظم سے ملاقات کرا دی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے۔ وزیراعظم نے مدثر نارو کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے خصوصی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ عدالت عالیہ سے درخواست ہے کہ کچھ وقت دیا جائے۔ اس موقع پر جسٹس جسٹس اطہرمن الله نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو ڈھونڈنا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔ ہم لوگوں کو نہیں ڈھونڈ سکتے۔ تاہم ایسا کرنا ریاست کی خواہش ہی نہیں ہے۔ انہوں نے جبری گمشدگیوں کے کمیشن کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف گمشدہ افراد کے خاندان اس کمیشن میں جاتے ہیں، جنہیں تاریخ دیدی جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آج تک کسی گمشدہ شخص کو ٹریس نہیں کیا جا سکا، یہ تو سیدھا سیکدھا آرٹیکل 6 کا جرم ہے۔ گذشتہ سماعت پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا تھا کہ اس معاملے پر قانون سازی کر رہے ہیں حالانکہ اس میں تو قانون کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارے ملک میں ہزاروں ایسے خاندان موجود ہیں جنھیں نہیں سنبھالا جا رہا۔ ایسا نہیں یو سکتا کہ ریاست کے اندر ہی ریاست بنا دی جائے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ لاپتا افراد کا معاملہ پی ٹی آئی حکومت کو وراثت میں ملا تھا۔ اس تمام معاملے کا ایک پس منظر ہے۔ پاکستان میں خود کش دھماکے ہوتے تھے۔ ایسے بہت سارے کیس ہمارے سامنے ہے کہ لوگوں نے اپنی مدد سے سرحد پار کی۔ خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ جہاد کے نام پر پاکستانی شہریوں نے سرحد کو عبور کیا، تاہم اب وقت آ چکا ہے کہ اس کو روکا جائے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ صحافی کا کام ہی تنقید کرنا ہے لیکن مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ اسے لاپتا کر دیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جبری طور پر کسی کو بھی گمشدہ کرنا ملکی آئین سے انحراف ہے، ماورائے عدالت دہشتگرد کو بھی نہیں مارا جا سکتا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی ادارے کا فرد کسی کو بھی جا کر اٹھا لے۔ لوگ سالوں سے کمیشن میں اپنے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاپتا صحافی مدثر نارو کا معاملہ ہمارے لئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے، دیکھتے ہیں کہ اس پر ریاست کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ ہمیں ردعمل واضح نظر آنا چاہیے کہ لوگوں کو لاپتا اور گمشدہ کرنا ریاست کی پالیسی نہیں ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ وکلا اور اٹارنی جنرل کو عدالت عالیہ کی معاونت کیلئے کتنا ٹائم درکار ہے؟ اس پر ایڈوکیٹ ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ میں اس معاملے پر کل ہی معاونت کیلئے تیار ہوں لیکن اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کاش میں ایسا ہی کہہ سکتا، مجھے کچھ وقت درکار ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد صحافی مدثر نارر کیس کی سماعت آئندہ ماہ 18 جنوری تک ملتوی کر دی۔