شہر لاہورکے صحت و صفائی کے مسائل

شہر لاہورکے صحت و صفائی کے مسائل

گلزار احمد راجہ

لاہور شہر صوبہ پنجاب جبکہ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت صحت وصفائی کیلئے میونسپل کمیٹیاں ومیونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے تحت 1988-89تک صحت و صفائی کا انتظام ہر ضلع کے چیف میڈیکل آفیسر(ہیلتھ آفیسر)کے پاس ہوتا تھا جو DPH+ MBBSکو الیفائیڈہوتا تھا، ہیلتھ آفیسر کو اپنے علاقے کے صحت کے مسائل کے متعلق بخوبی علم ہوتا تھا اور اس کے فوری تدارک کیلئے مکمل چینل سسٹم موجود ہوتا تھا، کئی روزDHOاور میونسپل ہیلتھ آفیسر صحت و صفائی کے حوالہ سے کسی فیکٹری، کارخانہ، ہوٹل ، سنیما وغیرہ کو سیل کر دیتے تھے،متعلقہ کورٹ یا اتھارٹی DCیا کمیشنر بھی ہیلتھ آفیسر کی رپورٹ و سفارش کے بعد ہی کھولنے کی اجازت دیتے تھے۔

چونکہ ہیلتھ آفسیر DPH+MBBS کی ٹیم میں زونل میڈیکل آفیسر MBBS چیف سینٹری انسپکٹرز ، کورس شدہ سینٹری انسپکٹرز تمام لوگ منظم طریقہ سے اپنے اپنے تجربہ کی بنیاد پر کام کرتے تھے ۔ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کے مطابق صحت و صفائی کے مسائل کو حل کی جاتا تھا۔بدقسمتی سے یا کسی وجہ سے اس نظام کی ساکھ کو سمیٹ دیا گیااور لاہور سےSWM کے نام سے ایک نئے دارے کی بنیاد فروری 1989میں رکھ دی گئی اور DPH+MBBS ڈاکٹرز کی جگہ سول انجینئرز کو تعینات کرکے محکمہ صفائی Sanitationکو علیحدہ کر دیا گیا، پہلی گاڑیوں کی تعداد 13تھی جو1989میں ایک گاڑی Compactor تقریباً 16لاکھ روپے کی تھی۔ان گاڑیوں کے ذریعے سپیشل کنٹینرز (Containir)اس وقت ایک بھی فرم سے تقریباً 80,000روپے میں اور 10سے 20ہراز روپے کے سکپس تیار کرائے گئے ۔

یہ سکپس اور کنٹینرز لاہور شہر اس وقت کے مختلف علاقوں فیروزپور، اچھرہ ،مسلم ٹاون،وحدت روڈ ،گارڈن ٹائون کے علاقے میں آزمائشی طور پر رکھے گئے، جن علاقو ں میں لاہور شہر کی عوام نے کوڑا ڈالناشروع کردیا۔ جب ان کینٹینرز اور سکپس کو خالی کیا گیاتو معلوم ہوا کہ کوڑے کے ساتھ بجری مٹی ،ملبہ بلڈنگ، اینٹیں ،لکٹری کے ٹکڑے غرض کہ ہر طرح کا انتہائی ٹھوس ملبہ ڈال دیا گیاتھا،جس کو اُٹھانے کی ان گاڑیوں میں پاور (PTO)نہ تھی۔کئی گاڑیوں کے PTO گیئر ٹوٹ گئے۔ پہلےPD گاڑیوں کے گیئر لینے جاپان گئے تھے۔ اس کے بعدان کو تبدیل کردیا گیا حالانکہ و ہ سول انجینئر تھے مگر چونکہ وہ آٹوانجینئر نہ تھے ۔

اس کے بعدمزید گاڑیوں میں متعلقہ کنسلٹنٹ کے ذریعہ گاڑیوں کے مختلف پارٹس خاص کر PTOگیئر ہیوی ڈیوٹی RPM2000کے منگوائے گئے اس طرح اس شعبہ کو لاہورکے بعدپورے پنجاب میں اوربعد میں کراچی سندھ میں بھی متعارت کرایاگیا۔جبکہ اس وقت لاہور شہرSWMکے علاوہ LWMCاورترکی ویزے کمپنیاں ، چائنہ وغیرہ بھی اکٹھی ہوکرلاہور شہرکی صحت وصفائی میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں، اخراجات اربوں روپے میں پہنچ چکے ہیںمگر نظام آج بھی بری طرح ناکام بلکہ ناکارہ ہوچکاہے۔

کیاارباب اختیار میں وزیراعلیٰ پنجاب، وزیرصحت پنجاب نے اس انتہائی اہم مسئلہ پر کوئی کانفرنس یامیٹنگ عوامی رائے طلب کی ہے کہ اس نظام کو کیسے کامیاب کیا جاسکتا ہے یا کہاں کمی کوتاہی ہے، کیوں تین تین ادارے علیحدہ علیحدہ کروڑوں، اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود عوام الناس کو ڈلیور نہیں کر رہے ہیں؟ جواب کا انتظار رہے گاباقی اتنے بڑے اہم مسئلہ کو حل کرنے کیلئے لاہور شہر میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجودصحت وصفائی کا مسئلہ نہ حل ہو سکانہ ہی مستقبل میں اس نظام کیلئے کوئی امید نظر آتی ہے۔

سوائے اس کے ، ایک پیٹ بھر کے چلا گیا دوسرآتا ہے وہ بھی اپنا پیٹ بھرتا ہے اور اگلے کی باری آجاتی ہے ۔(مصنف سابق ڈی ایس وی میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور، محکمہ صحت رہ چکے ہیں)

شازیہ بشیر نےلاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 42 نیوز اور سٹی42 میں بطور کانٹینٹ رائٹر کام کر چکی ہیں۔