ویب ڈیسک: 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قابض ہوتے ہی افغان خواتین کے لیے سیاہ ترین دور کا آغاز ہوا۔ طالبان نے افغان خواتین کی زندگی اجیرن بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
طالبان نے ایک طرف عورتوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی تو دوسری جانب ان کو کام کرنے سے بھی روک دیا۔ طالبان نے افغان خواتین کو تمام سرکاری اور نجی اداروں سے جبراً نکال کے انہیں محض چار دیواری تک محدود کر دیا۔
طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالتے ہی بچیوں کی تعلیم پر نام نہاد عارضی پابندی لگائی لیکن 8 جون 2024 کو اس عارضی پابندی کو ایک ہزار دن مکمل ہو چکے ہیں۔ طالبان نے عورتوں پر نہ صرف رسمی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگائی بلکہ گھروں میں غیر رسمی سکولوں کو بھی زور زبردستی سے بند کروا دیا۔
طالبان کے قبضے سے پہلے افغان شہری خصوصاً خواتین جو امریکی، یورپی یا دیگر ممالک کے ساتھ کام کر رہے تھے ان کو بھی خصوصی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عورتوں کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے بھی طالبان کو بارہا وارننگز جاری کی جاچکی ہیں اور 18 جون 2024 کو اقوام متحدہ میں خصوصی رپورٹ بھی پیش کی جائے گی۔
افغانستان میں انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کی خصوصی رپورٹ میں طالبان کی عورتوں کیخلاف غیر انسانی اور مجرمانہ کاروائیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ میں طالبان کے امتیازی سلوک، انسانی حقوق کی پامالی اور خواتین کو خارج کرنے کے منظم اور باضابطہ نظام کیخلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں عورتوں کے حقوق کی پامالی سب سے سنگین مسئلہ ہے جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ مارچ 2024 میں طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے خلاف پتھر اور کوڑے مار کر قتل کرنے کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔
افغان خواتین میں خودکشی کی شرح بھی سنگین حد تک بڑھ چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی رپورٹ میں جن اقدامات کا مطالبہ کیا ہے ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔
"بین الاقوامی قانون کے تحت صنفی نسل پرستی کو ایک جرم کے طور پر تسلیم کیا جائے"۔ " خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن کی خلاف ورزیوں پر طالبان کیخلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے"۔ "بین الاقوامی عدالت میں طالبان کے جرائم کی تحقیقات کی جائیں"۔
"تمام ممالک طالبان کی قانونی حیثیت کو کالعدم قرار دیں جب تک افغانستان میں انسانی حقوق کے تقاضے پورے نہ ہوں اور خصوصاً خواتین کیلئے بہتری کا مظاہرہ نہ کیا جائے"۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان اس مرتبہ اقوام متحدہ کے مطالبات پر کان دھریں گے یا اس بار بھی افغان خواتین اپنے حقوق سے محروم رہیں گی؟۔