ویب ڈیسک : برطانیہ میں پولیس حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں ہونے والے ہنگاموں اور بلوؤں سے تعلق کے سلسلے میں، جن میں تشدد، آتش زنی اور لوٹ مار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور دیگر تاریکن وطن کو نشانہ بنایا گیا تھا، ایک ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ہنگاموں کا سلسلہ شمالی قصبے ساؤتھ پورٹ میں 29 جولائی کو تین کمسن لڑکیوں کے قتل کے ردعمل میں شروع ہوئے تھے، جس کا سوشل میڈیا پر غلط طور پر الزام ایک مسلم پناہ گزین پر لگایا گیا تھا۔
ان جھوٹی خبروں کے پھیلنے کے بعد برطانیہ بھر کے شہروں اور شمالی آئرلینڈ میں بھی تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ لیکن گزشتہ ہفتے بدامنی کے واقعات میں ملوث افراد کی شناخت میں تیزی آنے کے بعد ہنگاموں اور تشدد میں کمی آ گئی ہے۔
پکڑے جانے والے بہت سے ایسے افراد کو جو ہنگاموں میں ملوث پائے گئے تھے، فوری طور پر جیل بھیج دیا گیا ہے اور ان میں سے کئی ایک کو قید کی لمبی سزائیں دی گئی ہیں۔
نیشنل پولیس چیفس کونسل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ہنگاموں سے تعلق کے سلسلے میں برطانیہ بھر سے 1024 افراد کو پکڑا گیا ہے اور ان میں سے 575 پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
گرفتار کیے جانے والوں میں توڑ پھوڑ میں ملوث ایک 69 سالہ شخص اور بلفاسٹ میں ایک 11 سالہ لڑکا بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے ایک 13 سالہ لڑکی نے بیسنگ سٹوک مجسٹریٹز کی عدالت میں تشدد کرنے کے جرم کا اعتراف کیا ہے۔ استغاثہ کے مطابق 31 جولائی کو اس لڑکی کو ایک ہوٹل کے داخلی دروازے پر ان تارکین وطن کو مکے اور لاتیں مارتے ہوئے دیکھا گیا تھا جو وہاں پناہ کے لیے آئے تھے۔
پراسیکیوٹر تھام پاور کا کہنا تھا کہ اس دہشت ناک واقعہ نے ان لوگوں کے دلوں میں حقیقی خوف پیدا کیا ہو گا جو مشتعل افراد کے تشدد کا نشانہ بن رہے تھے۔ اور یہ معلوم ہونے پر کہ اتنی کم عمر لڑکی بھی تشدد میں ملوث تھی، خاص طور پر دکھ ہوتا ہے۔
برطانیہ میں اس سے قبل بڑے پیمانے پر فسادات 2011 میں اس وقت دیکھنے میں آئے تھے جب پولیس نے ایک سیاہ فام کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سڑکوں پر تشدد پھوٹ پڑا تھا جو کئی دنوں تک جاری رہا تھا۔
تیز رفتار اور سخت عدالتی کارروائی سے 2011 کے تشدد اور بدامنی پرقابو پانے میں مدد ملی تھی اور کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی پکڑ دھکڑ کے دوران تقریباً 4000 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔