ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ نیب ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے عمران خان کی درخواست پر سماعت کی ۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نیب امجد پرویز نے کہا کہ اس کیس میں 59 میں سے 39 گواہوں کے بیانات ہو چکے ہیں، نیب کے دس گواہوں کو ترک کر دیا گیا ہے، اس کیس میں مزید چھ سے آٹھ گواہوں کے بیانات ہونے ہیں۔
امجد پرویز نے کہا کہ کیس اگر حتمی مرحلے میں ہو تو ضمانت کے بجائے ٹرائل کورٹ کو ڈائریکشن دی جاتی ہےکہ وہ کیس کا جلد فیصلہ کرے۔کرپشن کے خلاف یونائیٹڈ نیشن کنوینشن کے مطابق کرپشن کی پراپرٹی ایفکٹیو ریاست کو جائے گی،بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کو فائدہ پہنچانے کے لیے پیسہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں بھیجا گیا،جو کرپشن کا پیسہ تھا وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس آنا چاہیے تھا۔
امجد پرویز نے کہا کہ ملک ریاض اور انکی فیملی منی لانڈرنگ میں ملوث تھے،این سی اے اور ملک ریاض کے درمیان اگریمنٹ ہوا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں پیسے این سی اے نے بھیجے یا ملک ریاض نے؟۔
امجد پرویز نے کہا کہ ملک ریاض اور انکی فیملی نے آؤٹ آف کورٹ این سی اے کے ساتھ معاہدہ کیا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے پاس اس معاہدے کا بھی کوئی ثبوت یا دستاویزات نہیں،آپ وہ بات کیوں کر رہے ہیں جسکا آپ کے پاس ثبوت نہیں،آپکے پاس اسکا کوئی دستاویز نہیں، ساری زبانی باتیں ہیں،آپ سے پہلے پوچھا تھا کہ فریزنگ یا ڈی فریزنگ کا آرڈر آپکے ہے،آپ نے کہا کہ اُن میں سے کوئی دستاویز آپکے پاس موجود نہیں ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپکے پاس آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے کوئی شواہد موجود ہیں؟آپ صرف وہ بات کریں جس کے آپ کے پاس شواہد موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مائی لارڈ کا سوال بہت سادہ ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہی آپ جواب کیوں نہیں دے رہے،آپ تو اپنے دستاویزات میں اس سوال کا جواب دے بھی چکے ہیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کے سامنے رکھے گئے نوٹ سے پہلے منتقل ہونے والی رقم سے متعلق کیا کہیں گے؟
نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز نے کہا کہ کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ ہو جانے کے بعد یہ رقم منتقل کی گئی،بانی پی ٹی آئی ایسٹ ریکوری یونٹ کا سربراہ تھا۔
جسٹس طارق جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ میں تو نہیں لکھا کہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئے گی۔
امجد پرویز نے کہا کہ اس عدالت کے توجہ دلانے پر میں نے کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ کو دوبارہ پڑھا ہے،یہ کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ بہت بڑا فراڈ تھی۔بحریہ ٹاؤن کی جانب اے بینک کے ذریعے کروڑوں روپے کی ڈونیشن القادر ٹرسٹ کو دی گئی،القادر ٹرسٹ کی جانب سے القادر یونیورسٹی بنائی گئی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یونیورسٹی کاکیا سیٹیٹس ہے، کیا عمارت بن گئی ہے؟ بچے پڑھ رہے ہیں ؟۔
امجد پرویز نے کہاکہ القادر یونیورسٹی کی عمارت بن چکی ہے اس میں بچے پڑھ رہے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ یونیورسٹی کس ادارے کے ساتھ افیلیٹڈ ہے؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ساتھ یہ یونیورسٹی افیلیٹڈہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کرپشن کے پیسے سے یونیورسٹی بنا دی۔پاکستان کی تاریخ کی کوئی بات بتائیں کسی نے کرپشن کے پیسے سے ہسپتال یا یونیورسٹی بنائی ہے۔
سردار لطیف کھوسہ کے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ نیب کی جانب سے جمع کرایا گیا تحریری جواب بھی دیکھ لیں،شہزاد اکبر اگر کلیم کرتا ہے کہ وہ پیسہ لے کر آیا تو اس سے پوچھیںوشہزاد اکبر کا سارا کچھ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے کھاتے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ نیب کے گواہ نے تسلیم کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے دستخط کہیں موجود نہیں۔
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ نیب کے گواہ نے تسلیم کیا کہ کوئی رقم بانی پی ٹی آئی عمران خان یا بشریٰ بی بی کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی،گواہ نے مانا کہ بانی پی ٹی آئی یا بشریٰ بی بی نے کوئی ذاتی فائدہ نہیں لیا، نیب نے کسی موقع پر اس گواہ کے بیان کو اپنے خلاف قرار نہیں دیا، نیب کے اپنے گواہ کے اس بیان کے بعد کیس میں کیا باقی رہ جاتا ہے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے بتایا تھا کہ این سی اے نے برطانیہ میں رقم منجمد کی جو معاہدے کے ذریعے پاکستان منتقل کی گئی، 190 ملین پاؤنڈز کی منجمد کردہ رقم معاہدے کے تحت سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی۔
29 اپریل کو نیب پراسیکیوٹر کی عدالت میں پیش نا ہونے پر عدالت نے کہا تھا کہ ان کو آخری وارننگ دی جاتی ہے، اگر وہ مستقبل میں عدالت میں پیش نا ہوئے تو ہم کوئی فیصلہ کرلیں گے۔
واضح رہے کہ 23 جنوری کو سابق وزیر اعظم نے 190 ملین کیس میں ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
اس کیس میں 27 فروری کو احتساب عدالت اسلام آباد نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف فردجرم عائد کی تھی۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ناصر جاوید رانا نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز اسکینڈل کیس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کی۔