لداخ اور کارگل میں مودی سرکار کے خلاف مظاہرے اور احتجاج جاری

ویب ڈیسک: دہلی میں تین مہینے سے جاری کسانوں کے احتجاج کے بعد لداخ اور کارگل کی عوام بھی مودی سرکار کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی۔

مودی سرکار کی دس سالہ حکومت بے شمار جھوٹے وعدوں اوردعوؤں پر مشتمل ہے ، بھارت کےمختلف علاقوں میں مودی کیخلاف مظاہرے اور احتجاج بھی جاری ہیں۔

منی پور میں ایک سال سے جاری نسلی فسادات اور دہلی میں تین مہینے سے جاری کسانوں کے احتجاج کے بعد لداخ اور کارگل کی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئی۔

لداخ اور کارگل کی عوام نے بھی مودی کے جھوٹے وعدوں کیخلاف آواز اٹھاتے ہوئے مودی سے جواب طلب کرلیا۔

بی جے پی نے اپنے 2019کےانتخابی منشور میں لداخ کوہندوستانی آئین کےچھٹےشیڈول کےتحت خودمختارسیاسی ڈھانچہ دینے کا وعدہ کیا تھا، اپنے جھوٹے وعدے کی بنیاد پر بی جے پی نے انتخابات میں جیت تو حاصل کرلی لیکن اس کےفوری بعداپنےہی وعدوں سےانکاربھی کردیا۔

2019 میں مودی سرکار نے لداخ کو کشمیر سے الگ کرکے ایک خود مختار ریاست بنانےکاجھوٹاخواب عوام کو دکھایا لیکن مودی نے اپنے وعدوں سےپھرتےہوئےلداخ کی حکومت اپنے کنٹرول میں لے لی اور لداخ کی عوام کو ان کےحقوق سے محروم کردیا۔

مودی سرکار کیخلاف آوازاٹھاتےہوئے لداخ کے سرگرم کارکن سونم وانگچک نے 21 روزہ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا
سونم وانگچگ نے ہزاروں مظاہرین کے ساتھ مل کر مودی سرکار سے مطالبہ کیا کہ انہیں انکے آئینی حقوق دیے جائیں۔

مظاہرین کے مطابق لداخ کے لیڈرز وفاقی کابینہ میں نمائندگی کھو چکے ہیں اور مودی سرکار ایسے قوانین متعارف کروا رہی ہے، جس کے باعث غیر متعلقہ افراد لداخ میں کاروبار شروع کرکے وہاں کے مقامی کاروباروں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

لداخ کی عوام کے ساتھ کارگل کی عوام بھی مظاہروں میں شریک ہوکر اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کررہی ہے کیونکہ مودی کے متعارف کردہ نئے قوانین کے باعث لداخ اور کارگل کی عوام روزگار اور زمین دونوں سے محروم ہورہی ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہےمودی سرکار لداخ کی سر زمین پر فوجی تنصیبات اوراملاک تعمیرکرکےوہاں کے لینڈ سکیپ اور موسم دونوں کو سنگین نقصان پہنچا رہی ہے۔

سونم وانگچگ کی 21 روزہ بھوک ہڑتال 26 مارچ کو اختتام پذیر ہوگئی لیکن مودی نے اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے لداخ کی عوام کے نہ تو مطالبے سنے اور نہ ہی بہتری کیلئے کوئی اقدامات کیے۔،

سونم وانگچگ کے بعد لداخ اور کارگل کی خواتین نے بھی 10 روزہ بھوک ہڑتال کا آغاز کر دیا، سونم وانگچگ نے لیہ سے وادی چانگ تانگ تک پشمینہ مارچ کا بھی اعلان کیا جس کے بعد مودی سرکار نے لداخ میں آرٹیکل 144 نافذ کردیا، جس کے مطابق 4 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر قانونی کاروائی کی جائے گی۔

لداخ اور کارگل کی عوام آئین کے مطابق لوک سبھا میں محض دو نشستوں اور پبلک سروس کمیشن کے قیام کا مطالبہ کررہی ہے۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا مودی سرکار لداخ کی عوام کو انکا آئینی حق دینے پر رضامند ہوگا یا منی پور اور کشمیر کی طرح یہ ریاست بھی تباہی اور بربادی کی جانب دھکیل دیا جائیگی؟ مودی کا گودی میڈیا لداخ میں جاری فسادات اور انتشار پر سے عالمی توجہ ہٹانا چاہتا ہے لیکن یہ آخر کب تک لداخ میں لگی آگ کو چھپا پائیں گی؟

Watch Live Public News