ویب ڈیسک: مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ترمیم سے پہلے کیسے تعین کریں ترمیم قانون کے مطابق ہورہی ہے یا نہیں؟بعد ازاں عدالت نے مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کی جانب سے دائر درخواست پرسماعت ہوئی۔ عدالت نے مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست مسترد کردی۔
چیف محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ جب ترمیم ہوئی ہی نہیں ہے تو عدالت کیسے مداخلت کرسکتی ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ترمیم سے پہلے کیسے تعین کریں ترمیم قانون کے مطابق ہورہی ہے یا نہیں؟
ابراہم سیف الدین نے کہا کہ آئینی ترمیم کا ڈرافٹ اسمبلی میں لایا گیا ہے۔
چیف محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ تو آپ درخواست لے کر یہاں آگئے؟ اسمبلی میں بیٹھے 24 کروڑ عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔
عدالت نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پریکس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کی ججمنٹ پڑی ہے؟
ابراہیم سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ججمنٹ پڑھی ہے۔
چیف محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ اس کے باوجود آپ نے ایسی درخواست دائر کرنے کی جسارت کی؟یہ درخواست کیسے قابل سماعت ہے؟۔
ابراہیم سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ آئینی ترمیم عوام حقوق کے خلاف اور عدلیہ پر حملہ ہے،ترمیم سے پہلے مسودہ بار کونسلز اور وکلا تنظیموں کے سامنے لانا چاہیے بحث ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کس قانون کے تحت مسودہ بارکونسلز اور وکلا تنظیموں کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیں؟تین چار لائنیں لکھ کر درخواست دائر کردی جاتی ہے پھر اخبارات میں خبر لگ جاتی ہے،سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف ہم کیسے جاسکتے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عوام کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 24 کروڑ عوام کے نمائندے اسمبلی میں موجود ہے۔
درخواست غلام رحمان کورائی و دیگر کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ 14 ستمبر کو وفاقی کابینہ نے آئین میں ترمیم کے مسودے کی منظوری دی تھی،آئینی ترمیم کا مسودہ 15 ستمبر کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نا ہونے کی وجہ سے پیش نہیں کیا جا سکا،آئینی ترمیم کے معاملے پر پوری قوم کو اندھیرے میں رکھ کیا گیا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ترمیم کا مسودہ تاحال وفاقی کابینہ نے میں پیش نہیں کیا گیا ہے،ترمیم کا مسودہ جو سوشل میڈیا پر موجود ہے اس میں بیشتر شقیں عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہیں،وفاقی کابینہ کو مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کرنے سے روکا جائے،آئینی ترمیم کا مسودہ پبلک کرکہ اس پر بحث کے لیے 60 دن کا وقت دیا جائے، درخواست میں سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن ،سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس اور سیکرٹری پارلیمنٹ ہاؤس کو فریق بنایا گیا ہے۔