پاکستان بھر کے وکلا نےآئینی ترمیم کومستردکردیا،جدوجہد جاری رکھنےکااعلان

پاکستان بھر کے وکلا نےآئینی ترمیم کومستردکردیا،جدوجہد جاری رکھنےکااعلان
کیپشن: پاکستان بھر کے وکلا نےآئینی ترمیم کومستردکردیا،جدوجہد جاری رکھنےکااعلان

ویب ڈیسک:  ملک بھر کی وکلا تنظیموں نے 26ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے اس ضمن میں حکومتی اقدامات کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ وکلاء نے کہا کہ یہ کالا کوٹ ہی ہے جو وقت آنے پر قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے،نئے چیف جسٹس کے نوٹیفکیشن کے اجرا میں تاخیر کے ذمہ دار سیاسی قائدین نہیں ہیں،قاضی فائز عیسی کی ڈیمانڈ ہے کہ مجھے نہیں نکالو،آج جرنیل چھپ کر وار کر رہے ہیں۔یہ آئین جیسی بھی ہے عزت کے قابل ضرور ہےترمیم نہیں کرنے دیں گے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی بار ایسوسی ایشن کے تحت سٹی کورٹ میں آل پاکستان وکلا کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس میں سابق صدور سپریم کورٹ بار حامد خان، علی احمد کرد اور عابد زبیری، ماہر قانون دان منیر اے ملک اور وائس چیئرمین سندھ بار کونسل کاشف حنیف کے علاوہ لاہور، اسلام آباد، پشاور اور بلوچستان ہائیکورٹ بار سمیت دیگر بار کے عہدیداران نے شرکت کی۔

کراچی بارایسوسی ایشن کی مجوزہ آئینی ترامیم کےحوالے سے' آل پاکستان لائرزکنونشن میں بدنظمی، وکلا کی جانب سے نعرے بازی کی گئی۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار علی احمد کرد 

سابق صدر سپریم کورٹ بار علی احمد کرد نے وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‎2007 میں وکیلوں کی ایک تحریک شروع ہوئی تھی، وکلا تحریک صرف پاکستان نہیں دنیا کی تاریخ میں سنہرا باب ہے، آج بھی ہم وہی وکیل ہیں، ہم نے کہا تھا ہمارا ہاتھ ہوگا اور تمہاری گردن ہوگی، ہمارا پیغام اس وقت کے ڈکٹیٹر کے لیے تھا، اس وقت ایک جرنیل مدمقابل تھا، اب جو معاملہ ہے سب چھپ کر ہورہا ہے، ہم نے چھپ کر وار کرنا نہیں سیکھا ہے، جو ترامیم لائی جارہی ہیں وہ آئین کے چہرے پر کالے دھبوں کی صورت نظر آئیں گی۔

علی احمد کرد نے کہا کہ لولا لنگڑا آئین کسی ایک شخص کو انصاف نہ دے سکا، کراچی بار کے سالانہ ڈنر میں قاضی فائز عیسیٰ کے احترام میں تقریر نہیں کی تھی، آج کہتا ہوں ہم سے غلطی ہوئی، بلوچستان سے جو جج سپریم کورٹ گئے وہ جج کہلانے کے حقدار نہیں، سندھ کی تاریخ کا دلدادہ ہوں جہاں  صوفیا کرام اور بڑی بڑی شخصیات گزری ہیں، یہ اجرک اگر تمہارے سینے میں ہے کوئی مائی کا لال ترمیم نہیں لاسکتا ہے، یہ پارلیمان کے ممبر ہیں کہ جنہوں نے ترمیم کا مسودہ تک نہیں دیکھا اور ہاتھ پہلے سے کھڑے کیے ہوئے ہیں ہم ترمیم کے حق میں ہیں، آئین میں ترمیم ساری دنیا دیکھے گی ہم یہ ترمیم نہیں کرنے دیں گے، پردوں کے پیچھے چھپی اسٹیبلشمنٹ بھی اسکو منظور نہیں کروا سکتی۔

ماہر قانون منیر اے ملک 

ماہر قانون منیر اے ملک نے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس موڑ پر ہم کھڑے ہیں یہ 2007 سے زیادہ خطرناک ہے، اس وقت صرف ایک چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس تھا، اس وقت پورے عدالتی نظام کے خلاف ریفرنس ہے، عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کو دیکھنے کی ضرورت ہے، آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر وار سمجھتا ہوں، عدلیہ کی آزادی ایک مسلسل جدوجہد ہے، اصلاحات کی آڑ میں آئینی ترمیم لانا 2 دہائیوں کا دھچکا ہوگا، ایگزیکٹو کی تقرری سے عدلیہ کی کیا کریڈبیلیٹی ہوگی، وکلا کی جدوجہد نے آئینی ترمیم کے خدوخال تبدیل کیے ہیں۔

اپنے خطاب کے دوران تجاویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کنونشن کا مطالبہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی مسودہ پیش کرنے سے پہلے تمام بار ایسوسی ایشنز کو بھیجے اور مشاورت کرے اور ویب سایٹ پر شائع کیا جائے، تمام بار ایسوسی ایشنز اس پر اپنی رائے دیں، کسی بھی معاہدے میں 2 فریق ہوتے ہیں، سب سے بڑے فریق پاکستان کے عوام ہیں، کسی بھی معاملے پر پہلے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں، 17 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد وکلا برادری عدالت میں پیش ہوتے ہوئے بازوؤں پر پٹی باندھیں، وکلا نمائندگان کا کنونشن بلایا جائے اور جامع تحریک کے خدوخال طے کیے جائیں، اب وقت مرنے یا مارنے کا ہے، اگر یہ پیکج منظور ہوا تو وکلا کا پیشہ بے معنی ہوجائے گا، جو لوگ اسکی حمایت کررہے ہیں ان کے خلاف ہی یہ استعمال ہوگا، اکثر عدالتوں نے آئینی مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے، ہم اصلاح کے خلاف نہیں ہیں، ہم عدلیہ کو ماتحت لانے کی خلاف ہیں۔

صدر لاہور ہائی کورٹ بار اسد منظور بٹ 

صدر لاہور ہائی کورٹ بار اسد منظور بٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج تمام وکلا تنظیمیں ایک پیج پر ہیں، ہماری کوشش آئین کی بالادستی کے لیے ہے، جب تک ہر شہری کو اسکا حق نہیں ملتا ہمارے جدوجہد جاری رہے گی، ‎12 مئی کو کراچی کے وکلا نے تحریک کے لیے خون پیش کیا تھا، وکلا آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، ترمیم کے مسودہ سے حکومتی وزیر بھی لاعلم ہیں، وکلا بتائیں گے کہ آئین کی بالادستی کیسے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

ممبر پاکستان بار کونسل شفقت محمود چوہان 

ممبر پاکستان بار کونسل شفقت محمود چوہان نے کنوشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کا ذاتی ایجنڈا ہے، صرف اپنی ذات کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے، ہم ہر حد تک مزاحمت کریں گے، ہم ایسی کسی ترمیم کو نہیں مانتے، آئین کی روح کے خلاف ترمیم ناقابل قبول ہے۔

آل پاکستان وکلا کنونشن کے دوران بدنظمی 

آل پاکستان وکلا کنونشن کے دوران بدنظمی اور وکلا کی نعرے بازی بھی دیکھنے میں آئی، پیپلز لائیرز فورم کی جانب سے احتجاج اور نعرے بازی کی گئی۔

جنرل سیکریٹری پیپلز لائیرز فورم اعجاز سومرو 

جنرل سیکریٹری پیپلز لائیرز فورم اعجاز سومرو نے الزام عائد کیا کہ وکلا کا پلیٹ فارم سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، پارلیمنٹ کے خلاف کوئی بھی بات قابل قبول نہیں، قومی مفادات پر وکلا متحد ہیں، بلاول بھٹو نے آئینی اور قانونی بات کی ہے۔

جنرل سیکریٹری کراچی بار ایسوسی ایشن اختیار علی چنہ 

جنرل سیکریٹری کراچی بار ایسوسی ایشن اختیار علی چنہ نے کنوشن کے دوران بدنظمی دور کرنے کے لیے کہا کہ یہ سیاسی جلسہ نہیں ہے، آپ کا نکتہ نظر بھی سنا جائے گا، یہاں کوئی مقرر فارم 45 یا 47 کی بات نہیں کرے گا، ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔

سابق وفاقی وزیر قانون شاہدہ جمیل 

سابق وفاقی وزیر قانون شاہدہ جمیل نے وکلا کنونشن سے خطاب میں کہا کہ وکلا کو مشورہ دیتی ہوں سنبھل کر چلیں، سب کے پاس آئینی ترمیم کا الگ مسودہ ہے، اب تک کتنی ترامیم ہوچکی ہیں، آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے درمیان تنازع ہوا تو کیا ہوگا، کہا جارہا ہے آئینی عدالت کے پہلے سربراہ کی تقرری صدر صاحب کریں گے، کیا ایسا کرنا مداخلت نہیں، دنیا بھر میں کہیں خفیہ طریقے سے ترمیم نہیں ہوتی، وکلا خفیہ طریقے سے لائی گئی کسی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئے چیف جسٹس کے نوٹیفکیشن کے اجرا میں تاخیر کے ذمہ دار سیاسی قائدین نہیں ہیں، قاضی فائز عیسیٰ کی ڈیمانڈ ہے مجھے نہیں نکالو، ہم نے کسی سیاسی جماعت کے قائد کو سپریم کورٹ یا آئین کا محافظ نہیں بنایا تھا، آئین کا محافظ چیف جسٹس کو بنایا تھا، بدنصیبی ہے کہ جس شخص سے ہر شخص محبت کرتا تھا، اس نے سب ختم کردیا، آئینی ترمیم میں کچھ اچھی باتیں بھی ہیں کچھ بے وقوفانہ باتیں بھی ہیں، ترمیم پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے، پورے بحران کے ذمہ دار صرف چیف جسٹس ہیں، قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں سنیارٹی کا جھگڑا پیدا کرنا چاہتے ہیں، کچھ جج بائی پاس کرنے کے لیے اپنی سی وی دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ لائیرز فورم کے جنرل سیکریٹری راجہ خلیق الزماں انصاری 

مسلم لیگ لائیرز فورم کے جنرل سیکریٹری راجہ خلیق الزماں انصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ کوئی بھی غیرقانونی کام نہیں ہوگا، اگر حکومت نے کوئی غیرقانونی کام کیا تو ہم مزاحمت کریں گے، سپریم کورٹ میں کیوں اجارہ داری قائم ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے غریب کا بیٹا بھی جج بن سکے گا، آئین میں موجود پارلیمان کی اختیارات میں مداخلت ناقابل قبول ہے، سپریم کورٹ میں صرف سیاسی تماشے جاری ہیں، غریب کے کیس پر بھی تو بات ہونی چاہیے، ضرورت ہے کہ آئینی عدالت الگ اور سپریم کورٹ الگ ہو۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد 

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد نے کہا کہ مجوزہ ترمیم کو کوئی بھی وکیل من و عن تسلیم نہیں کرسکتا، سیکیورٹی کے نام پر کسی کو اٹھانے پر رٹ دائر نہیں کی جاسکے گی، یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، جس عدالت کی تعیناتی سیاسی ہوگی وہ عدالت بھی سیاسی ہوگی، ہم کل بھی قانون کے ساتھ تھے آئندہ بھی قانون کے ساتھ ہوں گے، آئینی عدالت کا حلف پی سی او حلف جیسا ہے، وکلا نہ کبھی جھکے تھے اور نہ کبھی جھکیں گے، وکلا نے قربانیاں اس لیے نہیں دی تھیں، یہ ترمیم نہیں سپریم کورٹ کو تالہ لگانے جارہے ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کا کیس آئینی کورٹ جائے گا۔

بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر افضال ہریفال 

بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر افضال ہریفال نے کہا کہ ہم نے عوام کا مقدمہ لڑنا ہے، ہم نے آئین کے لئے قربانیاں دی ہیں، ہمیں دلیل سے قائل کریں، جتنے بھی مسودے ہیں ہم سے شیئر کریں، اگر اٹھارہویں ترمیم پر بات ہوسکتی تو ابھی کیوں نہیں، میرا تعلق اس صوبے سے ہیں جہاں آئین کا کوئی آرٹیکل میری حفاظت نہیں کرتا، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو بنگلہ دیش یا ترکیہ ماڈل نہیں بلکہ خانہ جنگی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے بھی مسودہ شیئر نہیں کیا گیا، ہمارا مطالبہ ہے مسودہ عام کیا جائے تاکہ اس پر رائے عامہ ہموار کی جاسکے، ابہام کی صورت میں ملک کو انارکی کی طرف لے جانے کی کوشش ہوگی، لنگڑی لولی عدلیہ کو بچانے کے لئے عوام کو نکلنا ہوگا، جب تک مسودہ سامنے نہیں آتا ہم چین سے نہیں بیٹھے گے۔

صدر پشاور ہائیکورٹ بار فدا گل 

وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر پشاور ہائیکورٹ بار فدا گل نے کہا کہ آئینی ترمیم کے خلاف وکلا نکلیں گے، 2 سپریم کورٹس ہوں گی تو کیا بارز بھی 2 ہوں گی، عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا ساتھ دیں گے، اس طرح سے آئین میں ترمیم نہیں کرنے دیں گے۔

سندھ ہائیکورٹ بار کے سابق صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد

سندھ ہائیکورٹ بار کے سابق صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں میں شہادت اور قربانیوں کی بات کی جاتی ہے، سیاستدانوں کو قربانیوں کے بعد اقتدار مل جاتا ہے، وکلا تو قربانیوں کے بعد قربانیاں دے رہے ہیں، ثاقب نثار نے منتخب حکومت پر دھاوا بولا تھا تب بھی ہم نے آئین اور منتخب حکومت کا ساتھ دیا، ہم حق کا ساتھ دیتے ہیں، ہمیں کوئی سیاسی جماعت حق بات کہنے سے نہیں روک سکتی، آئین کسی سیاستدان یا جج کی جاگیر نہیں، ہر شہری کا ریاست کے ساتھ معاہدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج کے طریقہ کار پر بات ہونی چاہیے، آئین ہمارا جسم ہے، اس کی سرجری کرنے جارہے ہیں تو پوچھنے کا حق ہے کہ مرض کیا ہے، سوال پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ پارلیمان کو آئین سازی کا حق ہے، پارلیمان کو یہ حق بھی ہم نے دیا ہے، آمروں کا ہمیشہ کئی سیاسی جماعتوں نے ساتھ دیا، آمروں کی آئینی ترامیم پارلیمان نے شامل کیں، ہمیں تیاری کی ضرورت ہے کہ کیسے مزاحمت کو آگے بڑھایا جائے۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان  

حامد خان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں وکلاء نے جس طرح چیلنج قبول کیا ہے انکو سلام پیش کرتا ہوں ،  جب پہلی دفعہ آئینی عدالت کا سنا تو مجھے انتہائی افسوس ہوا،

آئینی کورٹس ایک یونیفائیڈ سسٹم ہوتا ہے ، یہ نظام پاکستان انڈیا،سری لنکا،بنگلہ دیش ،امریکہ سمیت دیگر جگہوں پر ہیں ، ہمارا اس سسٹم سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اسی طرح کی بات کرنے والا یہ تو لاعلم ہوگا یا بدنیت ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ  اگر متبادل قانون بن گیا تو کسی کو انصاف نہیں ملے گا ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے اس کام نہیں کیا جیسے کرنا چاہیے تھا ،اگر عمارت میں کوئی نقص ہے تو اسکو ٹھیک کیا جائے ناکہ عمارت گرادی جائے، ہم نے جرنیلوں کو خود سر پر سوار کرلیا ہے ، کبھی کوئی جرنیلوں کی مدد سے حکومت میں آجاتا ہے کبھی کوئی حکومت میں ۔

حامد خان نے کہا کہ  رات گئے پتہ چلا مسودہ آرہا ہے وزیر اعظم کے پاس بھی ترمیم کا مسودہ نہیں تھا ، پتہ چلا کہ ترمیم کا مسودہ جی ایچ کیو سے آرہا ہے ،  1985 میں ضیاء الحق نے ایک جماعت بنائی تھی ، ضیاء الحق کہا کرتا تھا کہ 24 صفحوں کا آئین جب دل کرے کا پھاڑ کر پھینک دوں گا ، عدلیہ سے شکایت ہے کہ کبھی کبھی آزادی کا اظہار کرتی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ  میں اس قاضی فائز عیسیٰ کو سپورٹ کررہا تھا جس نے ملٹری کورٹ کے خلاف فیصلہ دیا ، میں تو اس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ تھا جس نے کہا تھا ججز اور جرنیلوں کو پلاٹ نہیں ملنا چاہیے ، میں سمجھتا تھا ایک مختلف جج آنے والا ہے، ذاتی لالچ کہاں لے جاتی ہے ، افسوس کی بات ہے وہ آج انکا آلہ کار اور سہولت کار بنا ہے، ہمارے لیے یہی سپریم کورٹ فیڈرل کورٹ ہے یہی اعلی کورٹ ہے ۔

حامد خان نے کہا کہ  آئینی عدالت وکیلوں کی لاشوں کے اوپر سے گزر بنانا پڑے گی ، ابھی مجھے پتہ چلا ہے کہ آئینی عدالت کے ججوں کے انٹرویوز چل رہے ہیں ،وہ وکیل نہیں ٹاؤٹ ہیں اگر کھڑے نہیں ہوسکتے تو اس کالے کوٹ کو جلادیں ، وکلا اس قسم کی غلیظ ترمیم کو نہیں آنے دیں گے۔

Watch Live Public News