راولپنڈی ( پبلک نیوز) رنگ روڈ راولپنڈی منصوبے میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ مکمل کرلی گئی۔
تفصیلات کے مطابق راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں بے ضابطگیوں کی چھان بین کیلئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی کمیٹی کو 10 دن کے اندر تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔ کمیٹی نے رنگ روڈ راولپنڈی منصوبے کے انجینئرنگ، پروکیورمینٹ، کنسٹرکشن، فنانس، آپریشنز اینڈ مینٹینینس کے آر ایف پی سے متعلقہ ایشوز کی تحقیقات کیں۔ ان تحقیقات میں سرکاری اہلکار اور نجی کارکنان، جن میں سابق کمشنر راولپنڈی اور اس وقت کے ڈی جی آر ڈی اے، کنسلٹنٹس، لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر کے آر ایف پی سے متعلقہ ایشوز میں کردار کی تحقیقات کی گئیں۔
نیسپاک نے جب 2017 میں منصوبے کیلئے معقول الائمنٹ تیار کی تھی۔ تو پھر اٹک لوپ اور پسوال زگزیگ کے ساتھ نئی الائنمنٹ کہاں سے آئی ؟ پسوال چونکہ سی ڈے اے کی حدود میں آتا ہے تو آر ایف پی این ایچ اے اور سی ڈی اے کی منظوری کے بغیر کیسے پریس میں دیا گیا؟ تمام محکموں کے کمنٹس اور سفارشات کے بعد الائنمنت پلان کی سمری وزیر اعلی پنجاب نے 27 مارچ 2018 کو منظور کی۔ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود نے 4 جنوری 2020 کو ویکلی پروگریس میٹنگ کی صدارت کی جس میں منصوبے کی نئی الانمنٹ پیش کی گئی۔
تمام محکموں کی انپٹ اور وزیر اعلی کی منظوری کے بعد الائنمنت میں کی گئی تبدیلی پیپرا قوانین کے خلاف تھی۔ جون 24، 2020 کو پروجیکٹ سٹیرنگ کمیٹی کی تیسری میٹنگ جو چئیرمین پی اینڈ ڈی کی صدارت میں ہوئی، اس میں الائنمنٹ کے حوالے سے مطلع کرنے کے احکامات جاری کئے گئے مگر سابق کمشنر نے نئی الائنمنٹ کے حوالے سے دھوکا دہی سے کام لیا۔ تاہم نئی تشہیر شدہ الائنمنٹ اور آر ایف پی دونوں غیر قانونی قرار پائے۔ راولپنڈی کے موضع جات کی لینڈ ایکوزیشن کی رقم کم اور اٹک کے موضع جات کی رقم حد سے زیادہ رکھی گئی۔
رینٹل سنڈیکیٹ کے 37 لوگوں میں سابق کمشنر، ان کا بھائی کرنل ریٹائرڈ مسعود احمد اور کرنل ریٹائرڈ عاصم پراچہ بطور سابق کمشنر کے بے نامی دار شامل ہیں۔ نئی الائنمنٹ سے توقیر شاہ اور ان کے خاندان کی پراپرٹیز کو فائدہ پہنچا۔ سابق کمشنر وسیم علی تابش کو لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر کے اختیارات نہیں دے سکتے تھے جو کہ دئیے گئے اور یہ غیر قانونی تھا۔ سابق کمشنر نے منصوبے کے متعدد دورے کئے، جن دوروں کا مقصد اس منصوبے کے ارد گرد زمین خریدنا تھا۔ کمیٹی کی جانب سے سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود اور لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر وسیم علی تابش کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
محمد محمود اور وسیم علی تابش کا کیس نیب بھجوانے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ دونوں افسران نے غیر قانونی لینڈ ایکوزیشن پر 2.3 ارب روپے تقسیم کئے۔ اتنی بڑی رقم کی ادائیگی اٹک لوپ کے رینٹ سینڈیکیٹ کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی۔ وسیم علی تابش نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ضلع اٹک میں 2 ارب سے زائد کی رقم خرچ کی۔ رینٹل سینڈیکیٹ میں ملوث تمام لوگوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔ تحقیقات کرنے سے استفادہ اٹھانے والے بے نامی حصہ دار بھی سامنے آسکتے ہیں۔