امریکا قابو سے باہر، انتخابات کے بعد سیاسی تشدد بڑھے گا، اپسوس سروے

امریکا قابو سے باہر، انتخابات کے بعد سیاسی تشدد بڑھے گا، اپسوس سروے
سورس: Google

(پبلک نیوز) طیبہ نقشی:رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے سےظاہر ہوا ہے کہ امریکیوں کو خدشہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد ان کا ملک کنٹرول سے باہر ہوتا جا رہا ہے، اور ان میں یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ 5 نومبر کے انتخابات میں مزید سیاسی تشدد بھڑک سکتا ہے۔

یہ بات خبر رساں ادارے رائٹرز اور رائے عامہ کے جائزے کی ایک ماہر کمپنی ’اپسوس‘ کی جانب سے کرائے گئے ایک مشترکہ سروے سے سامنے آئی ۔

اس سروے سے ظاہر ہوا کہ ریپبلکن صدارتی امیدوار ٹرمپ کو امریکی صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں رجسٹرڈ ووٹروں میں بہت معمولی برتری حاصل ہے۔ ان کی مقبولیت کی شرح 43 فیصد تھی جب کہ صدر جو بائیڈن کی مقبولیت کی شرح 41 فیصد تھی۔

یہ معمولی بر تری جو سروے میں غلطی کے 3 فیصد پوائنٹ مارجن کے اندر تھی نشاندہی کرتی ہے کہ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے نے ووٹروں کے جذبات میں کوئی بڑی تبدیلی پیدا نہیں کی۔

لیکن ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن ووٹرز کی برابر تعداد پر مشتمل اس سروے کے 80 فیصد ووٹرز نے کہا کہ وہ اس بیان سے متفق ہیں کہ "ملک کنٹرول سے باہر ہو رہا ہے۔"

اس سروے میں،جو آن لائن کیا گیا تھا، ملک بھر سے 1202 بالغ امریکیوں کو شامل کیا گیا تھا،جن میں 992 رجسٹرڈ ووٹرز بھی شامل تھے۔

ٹرمپ ہفتے کے روز اس وقت قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے جب پنسلوینیا میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک ممکنہ قاتل کی گولی ان کے کان پر لگی۔ان کا چہرہ خون آلود ہو گیا اور جب انہیں تیزی سے اسٹیج سے نکالا جارہا تھا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی مٹھی فضا میں بلند کی، "لڑو! لڑو! لڑو!۔"

اس ریلی میں شریک ایک شخص ہلاک اور دو افراد شدید زخمی ہو گئے۔

شوٹنگ کے اس واقعے نے 1960 کے عشرے جیسے ہنگامہ خیز سیاسی ادوار کی یادیں تازہ کر دیں، جب 1963 میں ڈیموکریٹک صدر جان ایف کینیڈی کو قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد 1968 میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی قتل کیے گئے تھے۔ 

رائے عامہ کے اس تازہ جائزے میں شامل ووٹروں میں سے تقریباً 84 فیصد نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ انتخابات کے بعد انتہا پسند، تشدد کی کارروائیاں کریں گے۔

یہ شرح مئی میں رائٹرز/اپسوس کی جانب سے کرائے گئے اس سروے کے نتائج سے زیادہ تھی جس میں 74 فیصد ووٹرز میں یہ خوف ظاہر ہوا تھا۔

امریکا میں سیاسی تشدد کے خدشات میں اس کے بعد نمایاں اضافہ ہوا جب 6 جنوری 2021 کو بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کی انتخابی شکست کو پلٹنے کی کوشش میں ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے امریکی کیپیٹل پر حملہ کیا ۔

حملے کے روز چار افراد ہلاک ہوئےتھے، اور بلوائیوں کے خلاف لڑنے والا ایک کیپیٹل پولیس افسر اگلے روز موت کا شکار ہو گیاتھا۔

اگرچہ سروے میں شامل امریکیوں نے کہا کہ انہیں تشدد کا خوف ہے، لیکن چند نے اس کو نظر انداز بھی کیا ۔ صرف 5 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ ان کی سیاسی پارٹی میں کسی سیاسی مقصد کے حصول کی خاطر تشدد کا ارتکاب قابل قبول ہے۔ جب کہ جون 2023 کے رائٹرز/اپسوس پول میں 12 فیصد نے ایسا کہا تھا۔

ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی خبر میڈیا کی شہ سرخیوں میں چھائی ہوئی ہے اور اس نے ان کے کچھ قدامت پسند مسیحی حامیوں میں اس بحث کو ہوا دی ہے کہ ان کی حفاظت خدا نےکی تھی۔

رائٹرز اپسوس سر وے میں، رجسٹرڈ ریپبلکنز میں سے 65 فیصد نے کہا کہ خدا نے ان کی حفاظت کی تھی اور 11 فیصد ڈیمو کریٹس نے اس سے اتفاق کیا۔

امریکا مذہب کی پیروی کے اعتبار سے امیر ملکوں میں نمایاں ہے جب کہ حالیہ عشروں میں ایوینجیلیکل مسیحی بڑی حد تک ریپبلکن پارٹی کے ساتھ منسلک ہوئے ہیں۔

گیلپ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کے ایک جائزے کے مطابق جو 2022 میں کرایا گیا تھا، جائزے میں شامل تقریباً 77 فیصد امریکیوں نے کہا تھاکہ وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ جب کہ جائزے میں شامل کینیڈا کے شہریوں میں سے 56 فیصد اور برطانیہ کے 39 فیصد شہریوں نے ایسا کہا تھا۔

Watch Live Public News