ویب ڈیسک: افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان میں باجماعت نماز میں شرکت نہ کرنے والے ملازمین کے لیے سزا کا اعلان کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بے نمازی ملازمین کیلئے اعلان کردہ سزاؤں میں نصیحت کرنے سے لے کر تنخواہوں کی کٹوتی تک کی شق شامل ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ جو بھی نماز چھوڑنے کو دہرائے گا اس کی ملازمت کا مقام تبدیل کر دیا جائے گااور اس کے عہدے میں بھی تنزلی کر دی جائے گی۔
خیال رہے کہ تقریباً 2 دہائیوں کے بعد غیر ملیی افواج کے افغانستان سے انخلا کرنے کے بعد طالبان اقتدار میں آئے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنی سخت گیر حکمرانی کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔
طالبان کا سب سے متنازع کام ملک میں 12 برس کی لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کرنا ہے جس پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
علاوہ ازیں انہوں نے خواتین کے باہر نکلنے سے لے کر ملازمت کرنے تک پر مختلف قسم کی پابندیاں لگارکھی ہیں۔
رواں ماہ اگست کی 15 تاریخ کو طالبان نے افغانستان پر اپنی حکمرانی کے تین سال مکمل ہونے کا جشن منایا ہے۔
ان 3 برسوں میں طالبان کچھ اقتصادی اشاریوں میں بہتری لائے ہیں، برآمدات میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ سیکیورٹی کی صورت حال بھی نمایاں طور پر بہتر ہوئی، شہری علاقوں میں داعش کے حملوں کے جاری رہنے کے باوجود وسیع پیمانے پر لڑائی رک گئی۔
تاہم ترقیاتی پروگرام کے لیے مالیات کی فراہمی میں کمی اور امریکی حمایت سے بینکنگ سیکٹر پر عائد پابندیاں ملک میں ایک بڑے انسانی بحران میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکمرانی کو تسلیم کرنے اور پابندیاں اٹھانے کا کوئی بھی راستہ اس وقت تک تعطل کا شکار رہے گا جب تک طالبان خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنا راستہ تبدیل نہیں کر لیتے۔