اٹلی کی انتہا پسند مئیر نے کرکٹ کھیلنے ، نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی

 اٹلی کی انتہا پسند مئیر نے کرکٹ کھیلنے ، نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی

ویب ڈیسک : اٹلی میں انتہا پسند مئیر نے کرکٹ کھیلنے اور مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر پابندی لگادی ۔

 انتہا پسنداور اسلامو فوبیا کی علم بردار شہر مونفالکون کی مئیر ماریہ کا کہنا ہے کہ  شہر کی ثقافت کو خطرہ ہے کیونکہ  غیر ملکی ورکرز کے باعث یہاں اسلامی بنیاد پرستی پائی جاتی ہے۔ ایک ایسی ثقافت جہاں خواتین کے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا جاتا ہے اور مرد اُن پر ظلم کرتے ہیں۔

تاہم غیر ملکی ورکرز جن میں اکثریت بنگلہ دیشی مسلمانوں کی ہے کا کہنا ہے کہ ’مسلمانوں کو یہ بتانا کہ وہ اجتماعی طور پر عبادت نہیں کر سکتے ایک نفرت آمیز عمل ہے اور وہ ہمارا مذہب ہم سے چھیننا چاہتی ہیں۔‘

 یادرہے اطالوی قصبے مونفالکون کی میئر نے اپنے علاقے کے دو بڑے اسلامِک سینٹرز میں اجتماعی نمازوں کی ادائیگی اور کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

مونفالکون میں رہنے والے تارکینِ وطن میں سے بڑی تعداد کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے جبکہ   مونفالکون میں دُنیا کا سب سے بڑے شپ یارڈ فینکانتیری واقع ہے جہاں کام کے لئے بنگلہ دیشی ورکرز کوباقاعدہ بلایا گیا تھا۔ اور یہ وہ مُسلمان ہیں جنھوں نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں یہاں آنا اور آباد ہونا شروع کیا تھا۔

انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی میئر انا ماریہ سیسنٹ  نے قصبے میں کرکٹ کھیلنے پر بھی پابندی عائد کررکھی ہے وہاں کوئی کرکٹ کھیلتا ہوا نظر آجائے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے اور اسے 100 یورو تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔

بطور میئر انا ماریہ نے اپنے دو ادوار میں قصبے کے مرکزی علاقے سے وہ بینچ ہٹوا دیے جہاں بنگلہ دیشی تارکینِ وطن بیٹھا کرتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے ساحل سمندر پر جانے والی مسلمان خواتین کے ملبوسات کے خلاف بھی مہم چلائی تھی۔

جہاں تک کرکٹ پر پابندی کی بات ہے تو اس حوالے سے میئر انا ماریہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے پاس کرکٹ گراؤنڈ تعمیر کروانے کے لیے نہ تو جگہ ہے اور نہ پیسے اور کرکٹ میں استعمال ہونے والی گیند بھی خطرناک ہے۔

انھوں نے  کہا کہ  وہ بنگلہ دیشیوں کو ان کا قومی کھیل کرکٹ کھیلنے کی آسائش مہیا نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے مطابق وہ ’اس کے بدلے کچھ نہیں کرتے۔’انھوں نے اس شہر کو، اس کمیونٹی کو کچھ نہیں دیا۔ وہ کہیں اور مونفالکون سے باہر جا کر کرکٹ کھیلنے کے لیے آزاد ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف خیالات کا اظہار کرنے پر انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں اور اسی سبب وہ 24 گھنٹے پولیس کی حفاظت میں رہتی ہیں۔

  انتہا پسند میئر نے  شپ یارڈ کمپنی پر ’ویج ڈمپنگ‘ (کم اُجرت دینے) کا الزام لگایا اور یہ بھی کہا کہ وہاں تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ کوئی بھی اطالوی شہری اس اُجرت کے لیے کام کرنا نہیں کرے گا۔

لیکن شپ یارڈ کے ڈائریکٹر کرسٹیانو باززارا اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمپنی اور اس کے ٹھیکیداروں کی جانب سے ادا کی جانے والی تنخواہیں اطالوی قانون کے عین مطابق ہیں۔

 یادہےاٹلی دنیا میں سب سے کم شرح پیدائش والے ممالک میں سے ایک ہے۔ گزشتہ سال اٹلی میں صرف 379,000 بچے پیدا ہوئے تھے۔

اٹلی کو مزدوروں کی کمی کا بھی سامنا ہے اور ماہرین کا ماننا ہے کہ اٹلی کی سکڑتی ہوئی افرادی قوت پر قابو پانے کے لیے 2050 تک سالانہ دو لاکھ 80 ہزار غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت ہوگی۔

 یادرہے پورے اٹلی میں صرف آٹھ مساجد ہیں حالانکہ وہاں تقریبا 20 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ اس کے مقابلے میں فرانس میں دو ہزار سے زائد مساجد ہیں۔

 دوسری طرف مونفالکون کی میئر انا ماریہ نے اٹلی سے باہر یورپ کی اسلامائزیشن کے خلاف اپنی مہم جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔  کیونکہ اب وہ یورپی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو چکی ہیں اور جلد ہی انھیں اپنا اسلام مخالف پیغام برسلز تک لے جانے کا موقع ملے گا۔

Watch Live Public News