(ویب ڈیسک ) آئینی ترمیم کو 26 ویں ترمیمی ایکٹ 2024ء کا نام دیا گیا ہے ۔ آئینی مسودے میں 191A کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 38 اور آئین کے آرٹیکل 48 اور آئین کے آرٹیکل 81 میں ترمیم کی گئیں ہیں۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق کابینہ کی صدر یا وزیراعظم کو بھیجی گئی سفارشات کے متعلق کوئی عدالت نہیں پوچھ سکے گی ۔آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کر کے جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے 4 سینئیر ترین جج شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے،اس کے علاوہ وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کا نامزد وکیل جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے ۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو ، دو ارکان شامل کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کا تعلق حکومت اور اپوزیشن سے ہو گا۔
نئے مسودے میں ایک بار پھر آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے۔جس کے مطابق جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔
نئے مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار ائینی بینچز کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔ آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی۔