اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ملک میں اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ معاملات کو سیاسی طریقے سے حل نہ کیا جائے تو مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ کچھ ایشوز ایسے ہیں جن کا حل بہت ضروری ہے اور 2، 3 ایشوز تو ایسے ہیں کہ جن پر ہم سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ بلوچستان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 50 کی دہائی سے ایک سلسلہ شروع ہوا اور پھر سمجھوتے ہوئے، میں نے بلوچستان کی حکومت پر نقطہ چینی کی جسارت بھی کی تھی اور ہم بلوچستان گئے تو کہا گیا کہ آپ کو نقطہ چینی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ 12 سال قبل سوات میں جو ہوا وہ سب کو یاد ہو گا اور امن کیلئے سوات کے عوام کا احتجاج کرنا اچھی بات ہے لیکن سوات میں 13 سال بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ رستے ہوئے زخموں کو نظر انداز کرنا نقصان دہ ہے۔ سوات میں لگی آگ مجھ سمیت سب کے دامن تک پہنچ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کے ذمہ کوئی نہ کوئی گناہ ہے جو کہہ رہا ہوں وہ سنجیدہ ہے اور ہاؤس کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہم نے فاش غلطیاں کیں لیکن اب اس کا حل ڈھونڈا جاسکتا تھا۔ زخم بہہ رہا ہے اور اس پر مرحم رکھنے اور علاج کی ضرورت ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جمہوری طریقے سے ایک حکومت کو ہٹایا گیا اور جن کی حکومت ہٹائی گئی وہ شخص ریاست کو بلیک میل کر رہا ہے۔ مسائل کا مستقل حل نکالنا چاہیے، ہم اسے مانیں یا نہ مانیں، ہمارے پاس طاقت پوری ہے یا نہیں لیکن مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔ اس وقت جس ملک کا نام پاکستان ہے اور ہم ایک قوم ہیں۔ ملک کی اشرافیہ نے غلطیاں کیں جن کو تسلیم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سوا 3 کروڑ پاکستانی کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہا ہے اور انہیں نہیں پتہ یہ زندگی کہاں لے جائے گی کیونکہ سب کچھ لٹ چکا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارا معاشرہ جمہوری نہیں۔ عوام کی خواہشات اور دکھ اگر شئیر نہیں کر سکتے تو حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام کے ایک ڈیڑھ سال بعد ایک مختلف رائے کو تسلیم نہیں کیا گیا اور لیاقت باغ میں فائرنگ کے بعد لوگ دوسرے صوبوں میں چلے گئے۔ ایسی ہی صورتحال بلوچستان میں کئی دہائیوں سے ہے لیکن اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔