ویب ڈیسک: پاک ایران گیس پائپ لائن پر اہم ترین پیش رفت ، پاکستان نے اپنے 80 کلو میٹر علاقے میں پائپ لائن بچھانے کاحتمی فیصلہ کرلیا، کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کابینہ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کا معاملہ زیر غور آئے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران سرحد تک ابتدائی طور پر 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے جس کے لئے توانائی کمیٹی سے منظوری کے بعد کابینہ سے حتمی منظوری لی جائے گی۔ 80 کلو میٹر پائپ لائن بچھانے کے لئے ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)نے 781 کلومیٹر طویل منصوبے میں سے پہلے مرحلے کو مکمل کرنے کی منظوری دی ہے جس کے تحت گوادرسے پائپ لائن شروع کر کے تقریباً 80 کلومیٹر تک کا حصہ بچھایا جائے گا۔
اگر امریکہ کی طرف سے کوئی اعتراض سامنے نہ آیا تو اگلے مرحلے میں اسے نواب شاہ سے منسلک کیا جائے گا۔ ایران پہلے ہی پاکستان کی ڈیڈ لائن میں ستمبر 2024ء تک توسیع کر چکا ہے۔
وزارت خزانہ کے پاس ساڑھے تین سو ارب روپے (1.2 ارب ڈالرز) کی رقم موجود ہے جو جی آئی ڈی سی (گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس) کی مد میں جمع کیے گئے تھے۔ (2008 میں ہونے والے معاہدے میں ابتدائی طور پر بھارت بھی شامل تھا)۔
واضح رہے کہ ایران سے قدرتی گیس کے حصول کے لیے منصوبے پر بات چیت کا آغاز 1995 میں ہوا تھا، سال 2009ء میں ہونے والے اس معاہدے میں ابتدا میں بھارت بھی شامل تھا لیکن امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد بھارت نے اس منصوبے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔
بھارت کے منصوبے سے الگ ہونے کے بعد پاکستان اور ایران نے دوطرفہ طور پر اس معاہدے کو آگے لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اْس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے دورہ ایران کے دوران ایک فریم ورک پر دستخط کئے تھے، پاکستان اور ایران کے صدور نے مارچ 2013ء میں اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا تو اس منصوبے کو ’امن پائپ لائن‘ کا نام دیا گیا تھا۔
دو طرفہ معاہدے کی رو سے یہ طے کیا گیا کہ اگر پاکستان اس منصوبے کو 2014ء کے آخر تک مکمل نہیں کرتا تو یکم جنوری 2015ء سے ایران سے گیس نہ لینے پر پاکستان یومیہ 10 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرے گا۔دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ 25 سال کیلئے کیا گیا تھا،یہ 2ہزار 757کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن منصوبہ ہے جس کے ذریعے پاکستان کو 750 ایم ایم سی ایف ڈی (75 کروڑ مکعب فٹ) گیس یومیہ حاصل ہونا تھی جو کہ گوادر پورٹ کے مکمل ہونے پر ایک ارب مکعب فٹ ہوجانا تھی اور اضافی 25 کروڑ مکعب فٹ گیس گوادر میں استعمال کی جانا تھی۔
منصوبے کے ابتدائی تخمینے کے مطابق اِس پر سات ارب امریکی ڈالر رقم خرچ ہونا تھے اور منصوبے کو پاکستان کے توانائی بحران کے تناظر میں گیم چینجر قرار دیا جا رہا تھا لیکن پھر اس پر امریکی اعتراضات سامنے آ گئے۔
صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ پاکستان میں گیس کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، سردیوں میں تو گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہی ہے لیکن اب گرمیوں میں بھی گیس کی مسلسل فراہمی مسئلہ بن گئی ہے،قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
گذشتہ ایک ماہ کے دوران گیس کی قیمتیں تقریباً تین بار بڑھانا پڑی ہیں۔ چند روزقبل آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں مزید 67فیصد تک اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم فروری سے ہوگا۔
دوسری جانب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) انرجی سیکٹر پر مزید ٹیکسوں میں اضافے کا مطالبہ کررہا ہے۔اِن حالات میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
Pakistan finally plans to start building its part of a long-elusive gas pipeline to Iran-after umpteen false starts. Why? It faces a whopping $18B penalty if it doesn’t build it.
— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) February 20, 2024
With SIFC backing the move, it appears to be serious this time around. https://t.co/5eFVeqpUo3