ایجنسیوں پر نہیں، ان کے ماورائے قانون کام کرنے پر اعتراض ہے: جسٹس محسن اختر کیانی

ایجنسیوں پر نہیں، ان کے ماورائے قانون کام کرنے پر اعتراض ہے: جسٹس محسن اختر کیانی
کیپشن: لاپتہ بلوچ طلباءکا کیس:رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش

ویب ڈیسک: بلوچ لاپتا طلبا کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایجنسیوں کے کام کرنے پر نہیں ہے بلکہ ماورائے قانون کام کرنے پر اعتراض ہے۔ ایجنسیز کے کام کرنے کے طریقہ کار واضح ہو جائے تو اچھا ہوگا۔ عدالت نے سوالنامہ کے جوابات آئندہ سماعت پر جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔

تفصیلات کے مطابق بلوچ طلباء کی بازیابی سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے، گمشدہ بلوچ طلبا کی جانب سے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت نے ایک کمیٹی بنائی تھی، اس کمیٹی کے کچھ ٹی او آرز تھے۔

 جسٹس محسن اختر نے استفسار کیا کہ پچھلے 10سال میں بلوچ طلبا کے خلاف دہشت گردی کے کتنے کیسز درج کیے گئے؟

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے لاپتہ افراد کی کمیٹی کی رپورٹ عدالت پیش کردی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ گزشتہ 10سال میں کتنے لوگ گرفتار ہوئے، لاپتہ ہوئے یا ہراساں کیا گیا۔

 اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انٹیلیجنس ایجنسیز کسی بھی شخص کو ہراساں نہیں کرسکتیں، کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہکوئی بھی عدالت، جج، وکیل، صحافی، پارلیمنٹیرین ایجنسیوں کو قانون کے مطابق کام سے روکنے کی بات نہیں کرتے، صرف خلاف قانون کام کرنے سے روکنے کی بات کرتے ہیں۔قانون میں ایف آئی اے، پولیس تفتیش کرسکتی ہیں، ایجنسیز تفتیش میں معاونت کرسکتی ہیں، ہمیں قانون کے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہے، کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ صحافی ہو یا پارلیمنٹیرینز وہ دہشت گردوں کی سپورٹ نہیں کر رہا، کوئی بھی شخص اداروں کو قانون کے مطابق کام کرنے سے نہیں روکتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک سیاسی طور پر س معاملے کو حل نہیں کیا جاتا تب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو گا۔

 جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ ہم نے باہر سے کسی کو نہیں بلانا آکے معاملہ حل کرے، غلطیاں ہوتی ہیں غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ یہ 21 ویں سماعت ہے، آپ کی محنت سے کئی اسٹوڈنٹس بازیاب ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے لاپتہ افراد کیسز میں بہت کام کیا، جو رہ گیا وہ بھی کریں گے، تھوڑا وقت دے دیں، لاپتہ افراد سے متعلق سیاسی حل بھی تلاش کیا جا رہا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جنگ میں بھی سفید جھنڈا لہرا کر سیز فائر کیا جاتا ہے، بات چیت کر کے حل نکالا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بھی یہی استدعا ہے کہ تھوڑا وقت دے دیا جائے۔

ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا،  لاپتہ افراد پر کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی میں سے کوئی بھی لواحقین سے ملنے نہیں گیا، کمیشن بنا دیا گیا لیکن کوئی بھی پروگریس نہیں ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین کو کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق جو معلومات عدالت میں دی گئیں وہ درست نہیں ہیں، اس معاملے میں اٹارنی جنرل کی کاوشوں کو سراہنا ہو گا، اٹارنی جنرل کی کاوشوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں، جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز آتے رہیں گے یہ کورٹس کام کرتی رہیں گی، ایک کیس نہیں ہے کہ اس پر آرڈر کریں اور بات ختم ہو جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ کابینہ کے آئندہ 2 اجلاسوں میں اٹھایا جائے گا، عدالت ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی کی کمیٹی میں تبدیلی کرے، اس کمیٹی میں ڈی جیز لیول سے نیچے کے لوگ ڈالیں تاکہ کوآرڈی نیشن آسان ہو۔

عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایمان مزاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آرڈر جاری کروں گا وہ آپ دیکھ لیں، اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں کہ آپ جیسے لوگ کہاں پر ہیں جو مسائل کو حل کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر یہ بہت مشکل سوال ہے،اس معاملے کو اگر حل نہیں کیا تو مسائل بڑھیں گے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ایک اور لاپتہ فرد کا کیس ہے، اس میں بھی آپ آئیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس کیس میں ضرور آؤں گا۔

عدالت نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی۔

Watch Live Public News