ویب ڈیسک : ترمیم کی رو سے پارلیمانی کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کیا کرے گی جبکہ ترمیم کی منظوری کے بعد موجودہ پہلی نامزدگی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل ہو گی۔
تفصیلات کے مطابق 25 اکتوبر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کی مدت کا آخری دن ہے۔ 26 اکتوبر سے نئے چیف جسٹس عہدے کا حلف اٹھائیں گے، اس صورت حال میں قانونی ماہرین کے مطابق نئے چیف جسٹس کی نامزدگی 22 یا 23 اکتوبر کو ہو جانی چاہیے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے 8 اور سینیٹ کے چار ارکان ہوں گے۔ نیا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے منتخب ہو گا۔ نامزد جج کے انکار کی صورت میں باقی سینیئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جا سکے گا۔
ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جا سکے گا۔ چیف جسٹس کی مدت تین سال ہو گی، ماسوائے یہ کہ وہ استعفیٰ دے، 65 سال کا ہو جائے یا برطرف کیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے پاس رات 12 بجے تک کا وقت
پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے بعد چیف جسٹس 22 اکتوبر رات 12 بجے تک تین سینیئر ترین نام خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں۔ جن پر غور کرنے کے بعد پارلیمانی کمیٹی ایک نام کو نامزد کر کے نام وزیراعظم پاکستان کو بھجوائے گی۔ وزیراعظم چیف جسٹس کے تقرر کے لیے ایڈوائس صدر پاکستان کو حتمی منظوری کے لیے بھیجیں گے۔ چیف جسٹس بذریعہ وزارت قانون نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے۔
بندے گنے جائیں گے
کمیٹی اپنے پہلے اجلاس میں تین سینیئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس پاکستان بنانے کے لیے غور کرے گی۔ 12 رکنی کمیٹی میں اکثریتی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔
سپریم کورٹ کے ججز کیسے بنیں گے؟
آئینی ترامیم کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری بھی کمیشن کے تحت ہو گی۔ 12 رکنی کمیشن میں چیف جسٹس، پریزائیڈنگ جج، سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، اور سپریم کورٹ کا 15 سالہ تجربہ رکھنے والا وکیل، جو پاکستان بار کونسل کا نمائندہ ہو گا، شامل ہو گا۔
جوڈیشل کمیشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان شامل ہوں گے، جبکہ ایک خاتون یا غیر مسلم رکن بھی ہو گا، جو سینیٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرری کی اہلیت رکھتا ہو۔
دہری شہریت والوں کی چھٹی
26ویں آئینی ترمیم کے مطابق کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج تعینات نہیں ہو گا جب تک کہ وہ پاکستانی نہ ہو۔ سپریم کورٹ کا جج ہونے کے لیے پانچ سال ہائی کورٹ کا جج ہونا یا 15 سال ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہونا لازم ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق نئی ترمیم کا پہلا چیلنج یہ ہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کتنا جلد اور اتفاق رائے سے نئے چیف جسٹس کے نام پر متفق ہوتے ہیں۔
بلحاظ سینیارٹی سپریم کورٹ کے جج منصور علی شاہ سب سے زیادہ سینئیر ہیں تاہم 26 ویں ترمیم کے بعد اب سینیارٹی چیف جسٹس بننے کا معیار نہیں رہی۔ان کے بعد جسٹس منیب اختر کا نمبر ہے تاہم وہ بھی حکومتی حلقوں کے پسندیدہ جج نہیں ۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے تیسرے سینئر جج جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کے لیے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار ہیں۔
تاہم اگر یحیی آفریدی انکار کردیتے ہیں تو ان کے بعد جسٹس امین الدین بھی گڈ بکس میں ہیں اور چیف جسٹس پاکستان کا قرعہ ان کے نام بھی نکل سکتا ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی کون ؟
جسٹس یحییٰ آفریدی 23 جنوری 1965 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز ایچی سن کالج لاہور سے کیا، اس کے بعد انہوں نے 1985 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات اور سیاسیات میں بی اے کیا۔ اس کے بعد 1988 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور 1989 میں معاشیات میں ایم اے کیا۔
جیسس کالج، کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ سے 1990 میں ایل ایل ایم کے ساتھ اپنی تعلیم کو آگے بڑھایا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کئی تعلیمی اعزازات حاصل کیے جن میں عمر حیات گولڈ میڈل برائے بہترین اسپورٹس مین اور ایچی سن کالج میں بطور ہیڈ بوائے خدمات انجام دیں۔
انہیں برٹش فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس اسکالرشپ سے نوازا گیا اور وہ 1990 میں کیمبرج یونیورسٹی پولو ٹیم کے رکن رہے۔ 1991 سے 2005 تک انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں قانون کے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
انہوں نے 1991 میں ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر اور 2004 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل کے طور پر داخلہ لیا۔ کراچی اور لندن میں فاکس اینڈ گبنز میں انٹرن کے ساتھ ساتھ حکومت سرحد کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اور حکومت پاکستان کے وفاقی وکیل کے عہدوں کے ساتھ۔ وہ 1997 سے 2012 تک آفریدی، شاہ اور من اللہ کے پارٹنر تھے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کو 15 مارچ 2010 کو بطور ایڈیشنل جج بنچ میں شامل کیا گیا اور 15 مارچ 2012 کو پشاور ہائی کورٹ کے مستقل جج کی حیثیت سے تصدیق کی گئی۔
انہوں نے متعدد اضلاع کے لیے جج کے طور پر خدمات انجام دی ہیں اور خصوصی عدالتوں کی صدارت کی ہے، انہیں 21 اکتوبر 2021 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج مقرر کیا گیا تھا۔