جغرافیہ تبدیل نہیں کرسکتے، طالبان سے رابطہ رکھیں گے، منیر اکرم

munir akram on afghan taliban
کیپشن: munir akram on afghan taliban
سورس: google

ویب ڈیسک :اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی صورت میں افغان طالبان کو تنہا کرنے کی پالیسی کا حامی نہیں ہوگا اور وزیر اعظم شہباز شریف جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر افغانستان کے استحکام کے لیے طالبان کے ساتھ روابط رکھنے پر زور دیں گے۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے آغاز کے موقع پر وائس آف امریکا  کو ایک خصوصی انٹرویو میں منیر اکرم نے کہا کہ افغان طالبان کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن افغانستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل مشترکہ حکمت عملی اور متفقہ اقدامات لینے سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ افغان حکومت کی غلطیوں کی سزا افغانستان کی عوام کو نہیں ملنی چاہئے اور اسلام آباد کی کوشش ہے کہ افغان طالبان کی غلطیوں کو مشترکہ حکمت عملی کے تحت دور کیا جاسکے۔

اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان دنیا پر طالبان حکومت سے روابط رکھنے پر پالیسی پر زور دے رہا ہے۔

 ان کاکہنا تھا کہ  "ہم نے ہر وقت کہا ہے کہ افغانستان سے روابط رہنے چاہئیں، اختلاف ہوسکتے ہیں ان کے(طالبان حکومت) ساتھ لیکن بات چیت رہنی چاہئے۔ سفارتکاری کا مقصد ہی یہ ہے کہ روابط کے ذریعے اور اپنی پالیسی کے زریعے حالات کو بدلا جا سکے۔"

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت سے اپنے مسائل تو حل نہیں کرسکا تو دنیا کو اس بات پر کیسے قائل کرے گا؟ منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان کے افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں بشمول سرحدی و تجارتی مسائل، اس کے باوجود اسلام آباد انسانی بنیادوں پر افغانستان کے لوگوں کی امداد، تعلیم ا وردیگر سہولیات کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارے تعلقات افغان عوام کے ساتھ ہیں جو لامحدود ہیں اور ہم اپنا جفرافیہ تبدیل نہیں کرسکتے ہیں اور ہمیں ہمسایوں کے ساتھ بات چیت اور روابط رکھنےہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ جو اختلاف ہیں انہیں دوسرے طریقے سے دور کریں گے لیکن اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا جائے۔

منیر اکرم کے بقول "جہاں ہمیں ایکشن لینے کی ضرورت ہے وہ اپنی سیکورٹی کے لئے ہم لے رہے ہیں جہاں ہمیں سفارت کاری کی ضرورت ہے وہاں ہم سفارتی عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔"

Watch Live Public News