ناسا کی بڑی کامیابی، لاپتہ خلائی جہاز سے رابطہ بحال ہوگیا

ناسا کی بڑی کامیابی، لاپتہ خلائی جہاز سے رابطہ بحال ہوگیا
کیپشن: Missing spacecraft regained contact in major NASA achievement

ویب ڈیسک :امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ ناسا کا ’وائجر ون‘ پروب،  کا مواصلاتی رابطہ بحال ہوگیا ہے اور اب وائجر ون پیغامات بھیج رہا ہے۔ یہ کائنات میں لامتناہی دوری پر انسانی بنائی اہم چیز ہے۔

اسپیس شپ نے 14 نومبر 2023 کو زمین پر ایسا ڈیٹا بھیجنا بند کر دیا تھا جبکہ کنٹرولرز  کا کہنا تھا کہ اسے اب بھی ان کے احکامات موصول ہو رہے ہیں۔

مارچ میں، ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں کام کرنے والی ٹیموں نے دریافت کیا کہ اس کی خرابی کی وجہ ایک ’چپ‘ ہے، اور انہوں نے ایک کوڈنگ فکس وضع کیا جو وائجر ون کے 46 سالہ پرانے کمپیوٹر سسٹم کی یادداشت کی سخت رکاوٹوں کے اندر کام کرتا ہے۔

ایجنسی نے کہا، "اب وائجرون خلائی جہاز کےانجینئرنگ سسٹم درست ہوگئے ہیں، اور وہ اسٹیٹس کے بارے میں قابل استعمال ڈیٹا واپس کر رہا ہے۔"

ایجنسی کا کہنا ہے کہ"اگلا مرحلہ یہ ہے کہ خلائی جہاز سائنسی ڈیٹا دوبارہ واپس بھیجنا شروع کر سکے۔"

1977 میں لانچ کیا گیا، وائجر ون‘ ایسا پہلا خلائی جہاز تھا جو 2012 میں انٹرسٹیلر میڈیم(interstellar medium) میں داخل ہوا اور اس وقت زمین سے 15ارب میل سے زیادہ فاصلے پر ہے۔ زمین سے بھیجے گئے پیغامات کو خلائی جہاز تک پہنچنے میں تقریباً 22.5 گھنٹے لگتے ہیں۔

2013 میں بتایا گیا تھا کہ سائنسدانوں کے مطابق ’وائجر ون‘ جسے 1977 میں خلائی دنیا تسخیر کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا، نظام ِ شمسی سے باہر اب ایک اور نئی دنیا تسخیر کرنے کے راستے پر رواں دواں ہے۔

سائنسدانوں کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق یہ خلائی جہاز اسُ وقت ہماری زمین سے گیارہ ارب میل کی دوری پر تھا۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اس خلائی جہاز کے ارد گرد کے ماحول میں دو بڑی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔

سائنسدانوں کی جانب سے اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ خلائی جہاز سے نکلنے والی شعاعوں کی سطح میں تبدیلی مشاہدے میں آئی ہے۔ ایک وہ شعاعیں تھیں جو نظام ِ شمسی کے اندر کی شعاعیں ہیں۔ دوسری طرح کی شعاعیں وہ تھیں جو ستاروں کے درمیان خلاء میں سے پھوٹتی ہیں۔

ماہر ِ فلکیات بل ویبر کاکہنا تھا کہ’’Heliosphere" یا نظام ِ شمسی کا وہ حصہ جہاں شعاعیں منعکس ہوتی ہیں، اس میں پہلے کے مقابلے میں ایک فیصد شعاعوں کی سطح میں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ ستاروں سے پھوٹنے والی شعاعوں کا تناسب پہلے کی نسبت دو گنا ہو گیاتھا۔‘‘

گو کہ سائنسدان ابھی تک یہ کہنے سے گریز کر رہے ہیں کہ ’وائجر ون‘ ستاروں کے درمیان واقع اس خلاء میں موجود ہے جہاں ستاروں کی شعاعیں نکلتی ہیں جسے انگریزی میں interstellar space کہتے ہیں۔

اس کے جڑواں، Voyager 2 نے بھی 2018 میں نظام شمسی کو چھوڑ دیا۔

دونوں وائجر خلائی جہاز "گولڈن ریکارڈز" رکھتے ہیں، یعنی 12 انچ، سونے کی چڑھائی ہوئی تانبے کی ڈسکیں جن کا مقصد ہماری اس دنیا کی کہانی کو ماورائے دنیا تک پہنچانا ہے۔

ان میں ہمارے نظام شمسی کا نقشہ، اور یورینیم کا ایک ٹکڑا شامل ہے جو تابکار گھڑی کے طور پر کام کرتا ہے جو وصول کنندگان کو خلائی جہاز کے آغاز کی تاریخ بتاتا ہے، اور علامتی ہدایات جو یہ بتاتی ہیں کہ ریکارڈ کو کیسے چلایا جائے۔

توقع ہے کہ وائجرز کے پاور بینک 2025 کے بعد کسی وقت ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد وہ کہکشاؤں میں، ممکنہ طور پر ہمیشہ کے لیے، خاموشی سے بھٹکتے رہیں گے۔