ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہریارآفریدی کے ایم پی او آرڈر جاری کرنے پر ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی آپریشنز اور دیگر کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی پر برہم کا اظہار کردیا۔
عدالتی حکم پر ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس بابر ستار ڈپٹی کمشنر راولپنڈی حسن وقار چیمہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے حکم پرعملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟
ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے جواب دیا کہ ریکارڈ کیپر چھٹی پر تھا اس لیے ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا سکا۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ تو آپ خود ریکارڈ لے آتے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے ہائیکورٹ آرڈر کرے اور اس پرعملدرآمد نہ ہو، اسلام آباد والے بھگت رہے ہیں کیا آپ بھی بھگتنا چاہتے ہیں؟
جسٹس بابر ستار نے ہدایت کی کہ یقینی بنائیں عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو، اسی لیے ہائیکورٹس یہاں بیٹھی ہیں۔
اس کے بعد ایڈووکیٹ قیصر امام نے ایم پی او ریکارڈ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔
ڈپٹی کمشنر کے وکیل نے دوران سماعت کہا کہ پراسیکیوٹر نے عدالت میں جو ریکارڈ پیش کیا اس کی کاپی ہمارے پاس نہیں۔
ایس ایس پی کے وکیل نے بھی کہا کہ میری جانب سے بھی اعتراض ہے جو عدالت کے سامنے رکھنا ہے۔
جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اس عدالت کی کارروائی میں یہ تکنیکی چیزیں نہیں ہوں گی۔
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کیس دوسری عدالت کو منتقل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پراسیکیوٹر نے جو دستاویزات پیش کیں وہ ہمیں فراہم نہیں کی گئیں، یہ دستاویزات ہمیں پہلے سے فراہم کی جانی چاہئیں تھیں۔
وکیل ایس پی سٹی نے کہا کہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ پراسیکیوٹر خود گواہ کا ریکارڈ پیش کرے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ کرمنل ٹرائل نہیں ہے، اس میں کوئی پرائیویٹ ڈاکیومنٹ نہیں ہے، سارا سرکاری ریکارڈ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کوئی تکنیکی معاملات میں نہیں جائیںگے، ہم آپ کے اعتراضات سنیں گے۔
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ہم اس حوالے سے باقاعدہ درخواست نہیں دینا چاہتے لیکن یہ ہماری استدعا ہے۔
ایس ایس پی جمیل ظفر کے وکیل ایڈووکیٹ شاہ خاور نے کیس دوسری عدالت کو ٹرانسفر کرنے کی استدعا کردی۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ ایک سادہ سا کیس ہے، رول آف لا کا معاملہ ہے، اس کیس کو کسی اور جج کو ٹرانسفر نہیں کر رہے، آپ دلائل دیں، اگر ان کے ایم پی او آرڈرز ٹھیک تھے تو فیصلہ آجائے گا، انہوں نے کئی دن تک اس ملک کے شہریوں کو جیل میں رکھا ہے، عدالتی آرڈرز موجود ہیں ان کا کوئی ایم پی او آرڈر برقرار نہیں رہا۔
ایس ایس پی سٹی کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ یہ مشکل حالات میں ڈیوٹی کررہے ہوتے ہیں، ان پر بھی کئی قسم کے دباؤ ہوتے ہیں۔
جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہم اب یہ کہیں کہ پولیس آفیسر اور دیگر کسی گریٹ گیم میں مہرے بن جائیں؟
جس پر وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے عدالت ایک مخصوص ذہن کے ساتھ کارروائی چلا رہی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے اعتراضات اٹھائے تو ہم نے نوٹ کرادیے، یہ آپ کے مؤکل کی چوائس نہیں ہے، میں ایسا نہیں کروں گا، آپ نے جسے مرضی درخواست دینی ہے دے دیں۔
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ اس عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی سے متعلق اپنا مائنڈ ڈسکلوز کردیا ہے۔
جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ میرا اس کیس میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے، جب ہائیکورٹ کے فیصلوں پرعملدرآمد نہیں ہوگا توپھرکیا ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر نے 67 ایم پی او آرڈر جاری کیے اور لوگوں کو شُبے کی بنیاد پر بند کیے رکھا۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہم نے بھی حلف اٹھا رکھا ہے کہ قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ جو لوگ جیل میں رہے اُن کا ازالہ کون کرے گا؟
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ میں کیس ٹرانسفر نہیں کروں گا، آپ میری ججمنٹ کوچیلنج کرلیجئے گا۔
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ آپ چھٹیوں سے واپس آجائیں اس کے بعد کیس کو روزانہ کی بنیاد پر رکھ لیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آج ریکارڈ عدالت میں پیش ہوچکا ہے، اس کو تو حصہ بنانے دیں۔
جس پر شاہ خاور نے کہا کہ ہاں اس پرآج بے شک سماعت کرلیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ میں بھی آج فیصلہ سنانے والا نہیں تھا، شہادتیں ریکارڈ کرلیتے ہیں پھر تمام کاپیاں فراہم کردیں گے، شہادتیں مکمل ہونے کے بعد سماعت انتخابات کے بعد کرلیں گے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔