پی ٹی آئی نے الیکشن رکوانے کی کوشش کی،عمران خان الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہوئے،چیف جسٹس

پی ٹی آئی نے الیکشن رکوانے کی کوشش کی،عمران خان الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہوئے،چیف جسٹس
کیپشن: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت آج ہو گی

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن رکوانے کی کوشش کی، عمران خان الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہوئے۔جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ماننے والی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں بہت غلط فیصلے کیے،پی ٹی آئی نے اپنی غلطیوں کو بار بار دہرایا ہے۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13رکنی فل کورٹ نے سماعت کی، عدالت عظمیٰ میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل دیئے گئے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل کے دلائل 

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ، جس میں جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ شامل تھا، وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کو نیچرل حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظرانداز کیا۔

فیصل صدیقی نے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئینی شقوں کے کچھ بنیادی پہلو ہیں، ایک پہلو تو یہ ہے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی، دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست پر ہوں گی، تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہر جماعت کو اپنی جنرل نشستوں کے حساب سے ہی یہ نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ کر آئی ہیں انکو عوام نے ووٹ دیا ہے، ایسی سیاسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی، لیکن پولیٹیکل ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے، پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، یہ تو آپکے اپنے دلائل کے خلاف ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے رول 92کی زیلی شق دو پڑھیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آزاد امیدار الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں،پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا،یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں،پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے?

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہاکہ ہم یہ نہیں سنیں گے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے، آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراؤ میں آتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پرعمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

فیصل صدیقی نے کہاکہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا صرف آئین پر رہیں۔

وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا  کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی ؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیاجاسکتا۔

فیصل صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے،کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا،پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔

مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا:چیف جسٹس 

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پی ٹی آئی کے صدر تھے تو انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی، بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسے انگلیاں نہ اُٹھائیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی، آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے آئین کو بنے پچاس سال ہوئے ہیں، امریکہ اور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں، کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی،مشکل سے ملک پٹری پہ آتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے،ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے،اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو کیا ہوگا،کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔

الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا : جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے  کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا ، جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انہیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کے علم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے۔

فیصل صدیقی نے کہاکہ میں آپکی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ لیول پلئینگ فلیڈ نہ ملنے کا کہا گیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جس کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیسا فرق ہوتا ہے کہ کوئی آزاد الیکشن لڑ رہا ہے یا جماعت کا امیدوار ہے؟ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت سرٹیفکیٹ اسی لئےرکھا گیا ہے وہاں ان امیدواروں نے خود کو کیا ظاہر کیا تھا وہاں سے شروع کریں۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ امیدوار پی ٹی آئی میں ہی رہتے اور مخصوص نشستیں مانگتے، یہ لوگ دوسری جماعت میں چلے گئے اب پی ٹی آئی کا کیس ہمارے سامنے نہیں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن کے انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی،الیکشن کس نے کروائے، الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی،صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کو ہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائیں، منت، سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروائے۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت وزیراعظم عمران خان تھے، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے،سال بھر کی تاریخ دی گئی الیکشن کروانے کیلئے،یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں،جب ہم ووٹر کی بات کر رہے ہیں تو ساڑھے 8 لاکھ پی ٹی آئی کے ممبران کا حق کدھر گیا؟آدھی بات نہ کریں۔

وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف نظرثانی زیر التوا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم چیک کروا لیتے ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے،مخصوص نشستوں کیلئے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے،آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو انکی فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا،پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ کر دیا۔

وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز

سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشتوں سے متعلق کیس کی سماعت وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ فرض کریں اگر یہ اصول طے کیا جاتا ہے کہ امیدوار پی ٹی آئی کے تھے تو پھر آپ کدھر کھڑے ہونگے؟۔

وکیل سنی اتحاد کونسل  نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے تو اپنے دلائل خود ہی دھودیئے ہیں۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کی جماعت سیاسی جماعت ہے؟اگر سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں تو آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستوں کا کیا ہوگا،متناسب نمائندگی کا اصول سنی اتحاد کونسل پر کیسے لاگو ہوگا،کیا آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستیں خالی رہیں گی؟۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جاسکتیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ  نےریمارکس دیئے کہ جو سیٹیں جیتی اسی کے حساب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟۔

وکیل فیصل صدیقی  نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کو دیکھنا ہے کہ خالی نشستوں کو کیسے فِل کرنا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ سیاسی جماعت نہیں تو خالی نشستیں کہاں جائیں گی۔

وکیل فیصل صدیقی  نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پھر دیکھنا ہوگا کہ آزاد امیدوار کون ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر 10 لوگ شامل نہیں کرتےتو کیا ان کی سیٹیں خالی رہ جائیں گی؟جو جماعت سیاسی نہیں اور الیکشن نہیں لڑی اس کی مخصوص نشستیں کہاں جائیں گیں؟۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے طریقہ کار دیکھنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ سیکشن سے ایک لفظ لے کر اپنے کیس کو نہیں چلا سکتے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں الیکشن کے بعد ملتیں ہیں تو الیکشن کمیشن نیا شیڈول جاری کرے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے بتانا ہے کہ آپ سیاسی جماعت ہیں لسٹ کو ہم بعد میں دیکھ لیتے ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی جماعت کو جیتی گئی نشستوں سے زیادہ نہیں مل سکتیں،میرا نقطہ یہ ہے کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں،سنی اتحاد سیاسی جماعت ہے یا نہیں، اس پر سوال اٹھا ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے اقرار کیاہے کہ سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے،اگر سپریم کورٹ اپیل منظور کرتی تو پھر تین روز کے اندر والی اسٹیج سے نشستوں کے حوالے سے کام شروع ہوگا،میں پہلے چیف جسٹس کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ کیا میرے سوال کا جواب دینے کے لیے اجازت لینی ہوگی؟۔

وکیل فیصل صدیقی کے جملے پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سر ایسے نہ کریں، ہنس کر میرا قتل نہ کریں،جن کی لڑائی لڑ رہے وہ امیدوار سنی اتحاد کے ہیں یا تحریک انصاف کے؟۔

وکیل فیصل صدیقی  نے کہا کہ فی الحال تو سنی اتحاد کے ساتھ ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فی الحال کی بات نہ کریں، آپ کے ساتھ ہیں یا نہیں؟۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟ قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں،کیا آپ کی پارٹی کا آئین،آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟بطور آفیسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب اس لئے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن آج بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت مانتا ہے،ایوان کو نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا،میری نظر میں ایوان کو مکمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن ووٹرز کے حقوق کا محافظ ہونے کے بجائے مخالف بن گیا ہے،مخصوص نشستیں سنی اتحاد کو ملنی ہیں یا پی ٹی آئی کو یہ الیکشن کمیشن نے طے کرنا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزیدریمارکس دیئے کہ ہمارے ہوتے ہوئے بھی بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے،ملک آئین کے مطابق چلا ہی کب ہے؟۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ وقت آ گیا ہے کہ ملک آئین کے مطابق چلایا جائے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کر لئے۔

وکیل سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسدجان کے دلائل

وکیل سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسدجان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ خلاف آئین ہے، فیصل صدیقی اپیل کے حوالے سے تفصیل سے دلائل دے چکے، ہماری تین درخواستیں تھیں عدالت چاہے تو معاونت کےلیے تیار ہوں اور مزید معاونت بھی کردوں گا۔
وکیل سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسدجان کے دلائل مکمل کرلیے۔

پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ 

پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل شروع  ہوگئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنول شوزب کس کی طرف سے ہیں،پی ٹی آئی کا تو کیس ہی نہیں ہم تو سنی اتحاد کونسل کا کیس سن رہے۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ کیا کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی لسٹ میں شامل ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ  نے کہا کہ ہم سے سنی اتحاد کونسل نے لسٹ لی ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو ایسے نہیں سن سکتے کیونکہ مخصوص نشست کیلئے نہ پی ٹی آئی سے ہیں یا سنی اتحاد کونسل سے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے بنیادی حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں کہ کنول شوزب مخصوص نشست کیلئے امیدوار ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی کی لسٹ میں ہیں مگر سنی اتحاد کونسل نے لسٹ لی ہی نہیں۔میری موکلہ نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر ہیں،الیکشن ایکٹ کےمطابق کوئی شخص دو جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا،کنول شوزب کوپہلے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کنول شوزب کیا اکیلی تھیں جو سنی اتحاد کونسل میں نہیں گئیں؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب عام انتخابات میں منتخب نہیں ہوئیں، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو ملنے پر انہیں منتخب ہونا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اوکے، تو یہ متاثرہ فریق ہیں۔اس سب کے درمیان پی ٹی آئی کہاں ہے؟۔ 

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہی ہیں۔

جسٹس میاں محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے۔

چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کیا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سلمان راجہ صاحب آپ اس عدالت کے سامنے ہیں جو بنیادی حقوق کی محافظ ہے،اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے الیکشن سے متعلق بھی کیس زیر التوا ہے،ہر غیر متعلقہ کیس پر سو موٹو لیا جاتا رہا یہ تو پرفیکٹ کیس تھا۔

چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ آپ دلائل کیلئے کتنا وقت لیں گے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ  نے کہا کہ ایک گھنٹے سے زائد وقت لوں گا۔

چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کیا کہ ہم ایک گھنٹہ آپ کو نہیں دے سکتے،اس کیس کو ہم اتنا طویل نہیں کر سکتے،ہزاروں دیگر مقدمات زیر التوا ہیں۔زیر التوا مقدمات والوں پر تھوڑا رحم کر لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میں جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں،میری رائے میں پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا،پی ٹی آئی کو آکر کہنا چاہئے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسے حالات  تھے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟ کیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ ماننے والے آرڈر کیخلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سنی جانی چاہیے؟۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ چیمبر اپیل دائر نہ کرنے سے اہم ترین معاملہ غیرموثر ہوگیا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ کیا چیمبر اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائے عدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کر سکتی؟عدالت خود کو اپیلوں تک کیوں محدود کر رہی ہے؟ 184/3 کا نوٹس لینے میں کیا امر مانع ہے؟۔ 

الیکشن میں حصہ لیے بغیر کوئی جماعت سیاسی کیسے ہوگی؟ جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس یحیحی آفریدی  نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل اگر بیان دیدے کہ کنول شوزب انکی امیدوار ہونگی تو درخواست سن سکتے ہیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ آپ فیصل صدیقی کا کیا تباہ کر رہے ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا، سمجھ نہیں آ رہا آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں؟۔

وکیل نے کہا کہ میرے دلائل آئینی تشریح والے معاملے پر فیصل صدیقی سے مختلف ہیں، میری رائے میں کسی پروگریسو تشریح کی ضرورت نہیں، آئین کی زبان ہی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا کہتی ہے پارلیمانی میں نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی پارٹی تو اس وقت ابھی موجود نہیں ہوتی اس لیے ایسا ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعت وہ ہے جو رجسٹرڈ ہو،سیاسی جماعت کے لیے الیکشن میں حصہ لینا لازمی نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ الیکشن میں حصہ لیے بغیر کوئی جماعت سیاسی کیسے ہوگی؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ کہا جا رہا تھا پی ٹی آئی کالعدم ہو جائے گی۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی میں کوئی وکیل نہ ہوتا، پہلا الیکشن لڑ رہی ہوتی تو ہم یہ مفروضے سنتے، ہم اگر مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا، کل کوئی کہے گا مجبوری ہے سگنل پر رک نہیں سکتا، کسی نے غلط ایڈوائس دی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہاں عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا، فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا تو تب بھی عوام سے حق چھینا گیا، مکمل سچ کوئی نہیں بولتا۔

 وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ سیاسی بیانات میں نہیں جاؤں گا آئین و قانون پر دلائل دوں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی غلط تشریح کرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟

وکیل نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا الیکشن کمیشن بھی گئے۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ بار بار سپریم کورٹ کا نہ کہیں رجسٹرار کے پاس جوڈیشل پاور نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل دائر کیوں نہیں کی؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ بار بار عوامی منشا کی بات کر رہے ہیں پھر تو سب کا سیدھا سب نشستوں پر الیکشن ہونا چاہیے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ عوامی منشا کی ہی بات کریں لوگوں نے ووٹ پی ٹی آئی کو دیا تھا، کیا ووٹرز کو پتہ تھا آپ سنی اتحاد کونسل میں جائیں گے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سلمان اکرم راجہ صاحب سچ بول دیں،مجھے نہیں سمجھ ہر کوئی سچ کو دبانا کیوں چاہتاہے؟

ایک عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کا خمیازہ عوام کیوں بھگتیں : جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 2 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی، ایک عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کا خمیازہ عوام کیوں بھگتیں۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کو درست کیا جانا چاہیے تھا،میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرتے،کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم کہہ رہے ہیں ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کریں، پھر سارا حق امیدوار کو کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی جماعت میں جائے؟ آپ ہم سے ایسی چیز پر مہر لگوانا چاہتے ہیں جو مستقبل میں سیاسی انجینئرنگ کا راستہ کھولے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا حالات تھے کہ آپ نے رجسٹرار اعتراضات کیخلاف اپیل دائر نہیں کی، آپ آج بھی وہ اپیل دائر نہیں کر رہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں 40 منٹ کاوقفہ کر دیا۔

ایک بار پھر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت 

وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کہناکہ 86 ممبران کی کوئی حیثیت نہیں اسمبلی کو ڈس بیلنس بناتاہے،دوران مدت آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی کو جوائن کرسکتاہے،آئین کا مقصد پارلیمنٹ کو کسی سیاسی جماعت سے نمائندگی کروانا ہے۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ یعنی آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہیے اور ایسی بات سمجھ بھی آتی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ دیاجاتاہے،دیکھنا ہوگا کہ آزاد امیدواروں کا کسی جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہے یا نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ تین روز میں آزاد امیدواروں کا جماعت میں شامل ہونا ہے  لیکن کچھ ہوگا تو شامل ہوں گے نا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آزاد امیدوار تین روز بعد بھی شامل ہوسکتے ہیں،آزاد امیدواروں کی مرضی ہے،آزاد امیدوار کوئی سیٹ نہ جیتنے والی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ آئین کی لینگویج بہت اہمیت کی حامل ہوتی، تشریح کے لیے لینگویج کو دیکھنا،آپ نے کیا غلط جماعت منتخب کی؟ آپ کو تحریکِ انصاف میں شامل ہونا چاہیے تھا،ہر سیاسی جماعت کا ظاہرہوتاہے،اپنا نہیں بلکہ ملک کے لیے کیا اچھا ہوتا، وہ سوچنا ہے،ہر سیاسی جماعت ایک منزل کی طرح ہوتی ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ  آئین آزاد امیدوار کو کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا حق دیتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہیں کہ آپ سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے،اگر آزاد امیدوار تھے تو ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس نے کوئی سیٹ جیتی ہو۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے ہر لفظ کی ایک اہمیت ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو آزاد امیدوار شامل ہوں گے ،وہ جیتی ہوئی سیٹیں تصور ہوں گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کون امیدوار ہیں، کون سی سیاسی جماعتیں ہیں؟،عوام کو معلوم ہو سنی اتحاد ہے کون؟ کبھی حکومت میں آئی نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ 25 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں،عوام نے سیاسی جماعتوں کے مینی فیسٹو پڑھے نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مفروضہ لے لیتے، ایک ارب پتی نے سیاسی جماعت خرید لی، ہوتاہےنا ایسے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح تو پیسے والے لوگ سیاسی جماعتیں خرید سکتے ہیں،کوئی بندہ ایک جماعت خرید کر آزاد امیدوار شامل کر لے تو ووٹرز کا کیا ہوگا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ  نے کہا کہ کیا معلوم آزاد امیدوار ایک ایسی جماعت سے منسلک ہونا بہتر سمجھتے ہوں جس کی کوئی سیٹ نہ ہو۔

جسٹس اطہرمن اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ 86 امیدواروں کو پی ٹی آئی ووٹرز نے ووٹ دیا، 86 امیدواروں کو کیوں لگا کہ ایک ہی جماعت سے منسلک ہونا ہے؟۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق آزاد امیدواروں کو حق تھاکہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر آزادامیدوار ایک جماعت میں دو تین ماہ بعد شامل ہوتے تو کیا جماعت کو مخصوص نشستیں ملنے کی اہلیت ہوگی؟۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسی وجہ سے تین دنوں میں شامل ہونے کا قانون ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بہت ہی عجیب سا قانون ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ماننے والی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں بہت غلط فیصلے کیے،پی ٹی آئی نے اپنی غلطیوں کو بار بار دہرایا ہے،ہمارے سامنے درخواست گزار سنی اتحاد کونسل ہے،آپ کو پی ٹی آئی کا امیدوار سمجھا جائے یا سنی اتحاد کونسل کا؟۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ پی ٹی آئی امیدوار کے وکیل ہیں سنی اتحاد کونسل کی بات نہیں کر سکتے۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات تو ماننے والی ہے مجموعی طور پرتحریک انصاف نے برے انداز میں کیس کو چلایا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے 14 مختلف فیصلے رکھوں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ سنی اتحاد یا پی ٹی آئی کو چاہتے ہیں،صرف درخواست گزار کی بات ہو رہی ہے۔ 

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صرف درخواست گزار کی انفرادی بات نہ کی جائے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دے رہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے ریمارکس دیئے کہ میں عدالت سے معذرت خواہ ہوں۔ 

جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے درخواست گزار کی بات کریں دوسروں کی بات  کیسے کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی غلطیوں کا حل ہم ڈھونڈیں؟ ہم نے الیکشن کمیشن کو نہیں منظور کیا، آپ نے کیا، غلطیاں تو کی نا،کنول شوزب کوئی عوام کی نمائندہ نہیں ہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 2018 میں ایک سیاسی جماعت مشکلات کا شکار تھی، 2024 میں بھی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کو الیکشن کمیشن میں خرابی محسوس ہوئی درخواست دائر کریں یا قوانین میں ترامیم کریں، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے،عزت کا حقدار ہے، یہی مسئلہ ہے کہ پاکستان میں کچھ پھلنے پھولنے نہیں دیاجاتا، سپریم کورٹ بھی عزت کے ساتھ برتاؤ کی حقدار ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ 86 ممبران نے کاغذات جمع کرواتے وقت کہاکہ تحریک انصاف کے ہیں؟ کیا عوام کو انتخابات کے سسٹم پر بھروسہ ہے؟کیوں سچ نہیں بول سکتے؟۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا دل کچھ اور کہہ رہا ہے لیکن مجھے دماغ کے ساتھ دلائل دینے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں سے کسی کو اختلاف نہیں، آزاد امیدواروں کو کوئی تو شناخت ملے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ  نے کہا کہ ایسا نہیں کہہ سکتےکہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی  جماعت کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں،میں بطور آزاد امیدوار ہی کیس کو دیکھ رہا ہوں، بطور پی ٹی آئی امیدوار نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ جمیعت علمائے اسلام میں بھی شامل ہوسکتےتھے، کس کی رائے تھی سنی اتحاد میں شامل ہونے کی؟۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ممکن تھا کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی ذہنیت نہ ملے۔

جسٹس اطہرمن اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ اپنے ووٹرز کو حق دے رہے ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے ایسا کرنے پر مجبور کیا،ووٹرز ہمارے ساتھ ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو یہی نہیں معلوم کہ حامدرضا نے اپنے کاغذات میں کس پارٹی کا نام لکھا۔

وکیل فیصل صدیقی  نے کہا کہ حامدرضا نے بطور آزادامیدوار انتخابات میں حصہ لیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کنول شوزب کا معلوم نہیں، حامدرضا نے کیوں آزادامیدوار الیکشن لڑا، سنی اتحاد کہاں ہے؟۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جب تحریک انصاف بطور آزاد انتخابات لڑی تو حامد رضا نے بھی آزاد الیکشن لڑا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ حامدرضا اپنی ہی جماعت سے الیکشن نہیں لڑے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حامد رضا بطور تحریک انصاف امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کے شیڈول کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی  نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی کون ہے؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فی الحال گوہرعلی خان چیئرمین تحریک انصاف ہیں، الیکشن کمیشن نے انہیں آزادامیدوار دیکھا لیکن گوہرعلی خان نے سنی اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہوگئے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

اس سے قبل   الیکشن کمیشن نے اپنا تحریری جواب جمع کروایا تھا ،   الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ 24 دسمبر کی ڈیڈ لائن کے باوجود سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی فہرستیں جمع نہیں کرائیں تاہم امیداروں کی طرف سے تحریک انصاف نظریاتی کا انتخابی نشان دینے کا سرٹیفکیٹ مانگا گیا تھا لیکن بعد میں امیدواران تحریک انصاف نظریاتی کے انتخابی نشان سے خود ہی دستبردار ہو گئے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں کہا کہ تحریک انصاف نظریاتی کے انتخابی نشان سے دستبردار ہونے کے بعد امیدوار آزاد قرار پائے اور الیکشن کے بعد آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے جس پر سنی اتحاد کونسل کو الیکشن نے مخصوص نشستیں نہ دینے کا چار ایک سے فیصلہ دیا، پشاور ہائی کورٹ نے بھی سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔

واضح رہے کہ سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، عدالت نے 24 اور 25 جون کو 2 دن کیس سن کر سماعت مکمل کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے، دونوں دن کیس کی سماعت ساڑھے 9 بجے سے شروع ہو گی۔

Watch Live Public News