مودی سرکار کا تنقید کرنیوالے ٹوئٹر اکاوئنٹس کیخلاف ایکشن

مودی سرکار کا تنقید کرنیوالے ٹوئٹر اکاوئنٹس کیخلاف ایکشن

ویب ڈیسک: بھارتی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر کورونا وائرس پر قابو پانے کے حوالے سے تنقیدی پوسٹوں کو ہٹانے کا حکم دینے کے بعد ہزاروں صارفین کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ ٹویٹر کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے بھارتی حکومت کی درخواست کے بعد ٹوئٹر پر کچھ مواد بلاک کیا ہے۔

ملک میں ایسے معاملات پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی تھی کہ بہت سے اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کا سامنا ہے۔ایک ٹویٹر صارف نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ "آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنانے سے زیادہ ٹویٹس اتارنا آسان ہے، اسی لیے حکومت یہ کام کر رہی ہے"۔ ٹویٹر حکام کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ انہوں نے کون سا مواد ہٹایا ہے لیکن میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ان میں مغربی بنگال کے ایک سیاستدان کا ٹویٹ شامل ہے جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کووڈ اموات کے لئے براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، اور ایک ایسے اداکار کا ٹویٹ شامل ہے جنہوں نے مودی کو سیاسی ریلیاں منعقد کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا ایسے وقت میں جب کہ وائرس پھیل رہا تھا۔

ایک ہندوستانی عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ زیربحث مواد گمراہ کن ہے یا خوف و ہراس پھیلا سکتا ہے۔ بی جے پی کے قومی ترجمان گوپال اگروال نے برطانوی میڈیا سے گفتگو میں کہا  "ہم جعلی خبروں کی اجازت نہیں دے سکتے جس سے ملک کو نقصان پہنچے۔" انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جعلی خبروں کے ذریعہ بحران کو مزید خراب کیا جا رہا تھا، انہوں نے کہا سوشل میڈیا کے مواد کو قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔

وزات الیکٹرانکس اور آئی ٹی کے ایک عہدیدار نے اس سے قبل ہندو اخبار کو بتایا تھا کہ "ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے جو غیر اخلاقی مقاصد کے لئے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کررہے ہیں۔" لیکن سوشل میڈیا پر ، بہت سے لوگوں نے "سنسرشپ" پر توجہ دینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی بھارتی حکومت کی جانب سے قانونی نوٹس کے بعد فروری میں اس ٹوئٹر زرعی اصلاحات کے خلاف جاری کسانوں کے احتجاج سے منسلک 500 سے زیادہ اکاؤنٹس کو بلاک کیا تھا۔

مصنّف پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے فارغ التحصیل ہیں اور دنیا نیوز اور نیادور میڈیا سے بطور اردو کانٹینٹ کریٹر منسلک رہے ہیں، حال ہی میں پبلک نیوز سے وابستہ ہوئے ہیں۔