مبارک احمد ثانی کیس: سپریم کورٹ کا دینی اداروں سے معاونت کا فیصلہ

مبارک احمد ثانی کیس: سپریم کورٹ کا دینی اداروں سے معاونت کا فیصلہ
کیپشن: مبارک احمد ثانی کیس: سپریم کورٹ کا دینی اداروں سے معاونت کا فیصلہ

ویب ڈیسک: مبارک احمد ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے دینی اداروں سے معاونت کا فیصلہ کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کو نوٹس جاری کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آج توہینِ مذہب کے مقدمے میں نظر ثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

جماعت اسلامی کے وکیل شوکت عزیز صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے بھی اس کیس میں نظرثانی درخواست دائر کی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست ابھی موصول ہوئی، ابھی پڑھی نہیں۔

شوکت عزیز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں اس کیس میں عدالت کی درست معاونت نہیں ہوئی اور درست معاونت نہ ہونے پر 6 فروری کے آرڈر میں غلطی ہوئی۔

شوکت عزیز صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزار نے دفعات حذف کرنے کی استدعا کہیں کی ہی نہیں تھی۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ان سے سوال کیا کہ کیا یہ ایک ضمانت کے کیس کا معاملہ تھا؟

اٹارنی جنرل سے عدالت کو بتایا کہ ایک درخواست ضمانت کی تھی ایک فرد جرم میں ترمیم کی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ایمان پر سوال نہ اٹھائیں یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے معاملے پر جماعت اسلامی کے وکیل کو سنیں گے اور کیس کے میرٹس پر صرف متعلقہ فریقین کو سنیں گے۔ انھوں نے ریمارکس دیے کہ مختلف مکاتب فکر کے علما اور فریقین کو نوٹس کر دیں تو اچھا نہیں ہو گا؟

شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ مفتی منیب الرحمان اور دیگر کو نوٹس کر دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو کوئی بھی فیصلے کی حد تک رہنمائی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور ہم کسی فرد کو نہیں اداروں کو نوٹس کردیتے ہیں پھر وہ جس کو چاہیے بھیج دیں۔

سپریم کورٹ نے بڑے دینی مدارس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ہے، جن مدارس کو نوٹس جاری کیا گیا ان میں اسلامی نظریاتی کونسل ،دارالعلوم کراچی اور جامعہ نعیمیہ کراچی شامل ہیں۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی عدالتی فیصلے پر رائے دینا چاہتا ہے تو تحریری طور پر تین ہفتوں میں دے سکتا ہے۔

یاد رہے یہ توہین مذہب میں ضمانت کا وہی مقدمہ ہے جس میں گرفتار ایک ملزم کی درخواستِ ضمانت پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے چھ فروری 2024 کو دیے گئے فیصلے کے بعد گذشتہ ہفتے ان کے خلاف ایک منظم مہم شروع ہوئی تھی جس میں ملک کی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہو گئیں۔