الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی،الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کےخلاف درخواستوں پر سماعت ملتوی

الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی،الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کےخلاف درخواستوں پر سماعت ملتوی
کیپشن: الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی،الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کےخلاف درخواستوں پر سماعت ملتوی

ویب ڈیسک: الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ غلط سائیڈ پر جا رہے ہیں ایسا نہ کریں،جو کیس ہے ہی نہیں تو آپ اس طرف کیوں جا رہے ہیں، یہ سوال ہی نہیں،کسی نے یہ دلائل نہیں دیئے کہ الیکشن ٹریبونل کے جج ہائیکورٹ لگائے گی۔

تفصیلات کے مطابق الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے کی،الیکشن کمیشن حکام اور پی ٹی آئی امیدوار شعیب شاہین اور فیصل چودھری عدالت میں پیش ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آئین میں مشاورت کا طریقہ کار بڑاواضح ہے،آرٹیکل 218/3 میں ہے الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی ہے آئین کے مطابق الیکشن کرائے۔ڈیوٹی سے زیادہ اہم ہے،الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی میں شامل ہے کہ الیکشن ٹریبونل مقرر کرے،الیکشن ٹریبونل مقرر کرنا الیکشن کمیشن کے سوا کسی کااختیار نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا اپوائنٹمنٹ جج کی طرف سے نہیں کی جاتی۔

وکیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن حاضر یا ریٹائر جج کو الیکشن ٹریبونل چیف جسٹس کی مشاورت سے بنا سکتا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل کے مطابق تمام ایگزیکٹو کی تعیناتی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا جو الیکشن کمیشن کے اختیار ختم کرے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ غلط سائیڈ پر جا رہے ہیں ایسا نہ کریں،جو کیس ہے ہی نہیں تو آپ اس طرف کیوں جا رہے ہیں،یہ سوال ہی نہیں،کسی نے یہ دلائل نہیں دیئے کہ الیکشن ٹریبونل کے جج ہائیکورٹ لگائے گی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے ٹریبونل بنا دیا ہے تو اسی کااختیار ہے ریٹائر جج لگانا ہے یا حاضر سروس۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کیاکسی کیس میں چیف جسٹس خود الیکشن ٹریبونل ہو سکتا ہے؟۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ چیف جسٹس خود ٹریبونل ہو لیکن کوئی رکاوٹ بھی نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال ڈوگر نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں پیش ہوا تھا اور پاس ہوا تھا ، 2017 میں کسی بھی پارٹی نے اس کی مخالفت نہیں کی، الیکشن ایکٹ 2017 متفقہ طور پر سب جماعتوں نے پاس کیا تھا، الیکشن کمیشن نے ٹربیونل کا جج مقرر کرتے وقت چیف جسٹس ہائی کورٹ سے مشاورت کرنی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جب مشاورت ہو گئی تو ٹربیونل تبدیلی کے لیے دوبارہ مشاورت کی کوئی ضرورت نہیں، اس پر جج نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہائی کورٹ کے دو جج ٹربیونل جج مقرر ہوئے تو الیکشن کمیشن ایک سے دوسرے کو منتقل کر سکتا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کا مشاورت کے بعد الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت کا اختیار نہیں، شکور پراچہ صاحب کو ٹربیونل جج لگایا گیا تو کیا لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کی جائے؟

اس پر جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ اسلام آباد کا ٹربیونل لگانا ہے تو اسلام آباد کے چیف جسٹس سے مشاورت کرنی ہے، آپ غلط طرف جا رہے ہیں، ریٹائرڈ جج کو ٹربیونل جج مقرر کرنے کی شق موجود تھی تو اسے کیوں تبدیل کیا گیا تھا؟ پہلے آپ نے اس شق کو ختم کیا اور پھر دوبارہ سے شامل کر دیا، قانون جب بناتے ہیں تو پچاس سو سال کا سوچ کر بنایا جاتا ہے نا، یہ تو نہیں کہ آج کے لیے قانون بنا لیا تو کل کے لیے کل دیکھ لیں گے۔

اسی کے ساتھ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے، پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین نے جواب الجواب دلائل شروع کردیے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بہت سے بلنڈر کیے، کانسالیڈیشن بعد میں کی نوٹیفکیشن پہلے جاری کر دیے، میرے کیس میں الیکشن کمیشن نے اس غلطی کو درست بھی نہیں کیا۔

جسٹس عامر فاروق نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے 11 فروری کو کانسالیڈیشن پراسیس سے روکا، ریٹرننگ افسر نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر کانسالیڈیشن روکنے کا آرڈر کیا، 11 فروری کو ہی نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا اور وہ آج بھی فیلڈ میں موجود ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے کہا کہ اِن دلائل کا الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی سے کیا تعلق ہے؟

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ اُنہیں دلائل دینے دیں نا، بےچینی کیا ہے؟

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ بے چینی تو ہے نا وہ تو سامنے نظر آ رہی ہے، میں الیکشن کمیشن کی بدنیتی اس عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، کامیاب امیدواروں نے الیکشن ٹربیونل کی کارروائی کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا، 3 جون کو درخواستیں دائر کی گئیں،الیکشن کمیشن نے 4 جون کو سماعت کے لیے مقرر کر دیں،الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹربیونل کو ریکارڈ جمع کرانے کا آرڈر جاری کیا، الیکشن ٹربیونل الیکشن کمیشن کا ماتحت تو نہیں تھا۔

شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 10 جون کو درخواستوں پر فیصلہ کر کے ٹربیونل تبدیل کیا،الیکشن کمیشن نے 7 جون کو اسلام آباد کے لیے نیا الیکشن ٹربیونل جج مقرر کر دیا تھا،اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کو معلوم تھا کہ وہ ٹربیونل تبدیل کرنے جا رہے ہیں، یہ عمل الیکشن کمیشن کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، الیکشن ٹربیونل نے 6 ماہ میں الیکشن پٹیشنز پر فیصلہ کرنا تھا، آج پانچ ماہ گزر گئے لیکن کارروائی وہیں رکی ہے آگے نہیں بڑھ سکی، عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ کس طرح تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں؟

شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ٹربیونل تبدیلی کی درخواستوں پر ہمیں مناسب وقت نہیں دیا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ تعصب تو بڑا مخصوص الزام ہے،اس پر آپ کو سنا جانا چاہیے تھا۔

شعیب شاہین نے بتایا کہ الیکشن ٹربیونل نے جا کر جواب تو نہیں دینا، ہم نے ہی ریکارڈ دیکھ کر بتانا تھا، تعصب کا الزام لگایا گیا ہے تو اس کا ثبوت دینا پڑے گا، ٹربیونل جج میرے بھائی یا رشتہ دار ہیں تو بتائیں، اگر انکو اعتراض تھا تو الیکشن ٹربیونل کے سامنے وہ رکھتے۔

اسی کے ساتھ وکیل شعیب شاہین کے دلائل مکمل ہوگئے۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ روزانہ کتنی درخواستیں الیکشن کمیشن کے خلاف آتی ہیں؟ حتمی نوٹیفکیشن جو ہوتا ہے الیکشن کمیشن کا ہوتا ہے.

 وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ مجھے جواب الجواب کے لیے وقت چاہیے۔

بعد ازاں عدالت نے پیر کو جواب الجواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

Watch Live Public News