ویب ڈیسک: وکی لیکس کے ذریعے پوری دنیا میں تہلکہ مچانے اور حکومتوں کا دھڑن تختہ کرانے والے جولین اسانج 14 سال قانونی جنگ لڑنے کے بعد بالآخر رہا ہوکر گھر پہنچ گئے ہیں۔ انہیں امریکا کی سب سے مطلوب شخصیات میں سے ایک مانا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے کچھ ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا تھا جس کے باعث امریکا کو دنیا بھر میں کافی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ویسے تو ایسے سینکڑوں راز ہیں، لیکن ان میں 10 ایسے انکشافات تھے، جس نے امریکی حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ پاؤں پھلا دیے تھے۔
گوانتاناموبے فائلز
ان دس رازوں میں سرفہرس گوانتانامو فائلز ہیں جو 2011 میں سامنے آئیں۔
وکی لیکس نے امریکی حراستی کیمپ گوانتاناموبے میں 800 قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے ہوشرُبا انکشافات شائع کئے، جس میں ان پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تفصیلات اور ان کی حراست کی وجوہات موجود تھیں۔
عراق جنگ کے لاگز (2010)
دوسرے نمبر پر عراق جنگ کے حوالے سے انکشافات ہیں، وکی لیکس نے عراق جنگ میں امریکہ کے ہاتھوں 66,000 شہریوں کی ہلاکتوں، تشدد، عصمت دری، بدسلوکی اور خوفناک جنگی جرائم کے بارے میں تفصیلات کی خفیہ دستاویزات شائع کیں۔
اجتماعی قتل عام کی ویڈیو (2010)
وکی لیکس نے امریکی فوج کی ایک خفیہ ویڈیو جاری کی جس میں 2007 میں بغداد کے مضافاتی علاقے میں خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے دو صحافیوں سمیت لاتعداد شہریوں کے اندھا دھند قتل عام کو دکھایا گیا تھا۔
افغان وار ڈائری (2010)
وکی لیکس نے افغانستان میں جنگ اور امریکی جنگی جرائم سے بھری امریکی فوج کی 91,000 اندرونی رپورٹس پبلک کیں، جن میں انکشاف کیا گیا کہ
• بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں کم رپورٹ کی گئیں۔
• خفیہ کارروائیوں کے بارے میں تفصیلات، جیسے کہ امریکی جانٹریکٹرز نے افغانستان میں لڑکوں کی جسم فروشی کو کس طرح استعمال کیا۔
• فائلز میں امریکی اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ حقیقت واضح بیان کی گئی تھی کہ امریکی کوششوں کے باوجود طالبان صرف مضبوط ہو رہے ہیں۔
والٹ 7 (2017)
وکی لیکس نے سی آئی اے کی لیکس کا ایک سلسلہ شائع کیا، جس میں ایجنسی کے ہیکنگ ٹولز اور تکنیکوں کا انکشاف ہوا۔
لیکس سے پتہ چلتا ہے کہ سی آئی اے امریکی اور یورپی کمپنیوں کی مصنوعات کی وسیع رینج بشمول ایپل کا آئی فون، گوگل کا اینڈرائیڈ اور مائیکروسافٹ کا ونڈوز کو ہتھیار بنا سکتی ہے۔
دستاویزات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سی آئی اے نے سمارٹ ٹی وی جیسے آلات کو ریموٹلی ہیک کرنے اور ان کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹولز تیار کیے تھے اور انہیں خفیہ مائیکروفون میں تبدیل کر دیا تھا۔
مزید برآں، لیکس میں تجویز کیا گیا کہ سی آئی اے نے ممکنہ طور پر مہلک ٹیکنالوجیز تیار کی ہیں جو کاروں اور ٹرکوں جیسی گاڑیوں کو ریموٹلی کنٹرول کی اجازت دیتی ہیں۔
ڈپلومیٹک کیبلز (2010)
وکی لیکس نے غیر ملکی حکومتوں اور عالمی اداروں میں امریکی مداخلت کا پردہ فاش کیا۔ ان انکشافات میں اقوام متحدہ کے فیصلوں اور اقدامات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے طور پر اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی جاسوسی کرنا شامل تھا۔
اس کے علاوہ تیونس، مصر، یمن، سعودی عرب، پاکستان میں آمریتوں کی حمایت کرنا اور ان حکومتوں کو مالی اور فوجی امداد فراہم کرنا شامل تھا۔
لیکس میں امریکہ کی جانب سے متعدد ممالک میں غیر ملکی انتخابات میں ہیرا پھیری کرنے کا بھی انکشاف ہوا۔
وکی لیکس نے انکشاف کیا کہ امریکہ غیر ملکی حکومتوں پر ایسی پالیسیاں اپنانے کیلئے دباؤ ڈالتا ہے جو امریکی مفادات کے مطابق ہوں۔
اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے بین الاقوامی اداروں بشمول بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) پر اثر و رسوخ بھی امریکہ کا وطیرہ ہے۔
سیریا (شام) فائلز (2012)
وکی لیکس نے شامی سیاسی شخصیات کی 20 لاکھ سے زیادہ ای میلز جاری کیں، جو شامی حکومت کے اندرونی کاموں اور بنیاد پرست بغاوت اور داعش کے خلاف اس کے ردعمل کو بے نقاب کرتی ہیں۔
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ داعش کو سی آئی اے نے بنایا ہے۔
گلوبل انٹیلی جنس فائلز (2012)
وکی لیکس نے پرائیویٹ انٹیلی جنس فرم ”اسٹریٹ فور“ کی 5 ملین سے زیادہ ای میلز شائع کیں، جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ کس طرح امریکی حکومت اور بڑے کارپوریشنز نے کارکنوں، مظاہرین اور جاسوسوں کی نگرانی کی۔
ٹی ٹی آئی پی، ٹی پی پی اور ٹی آئی ایس اے (2013)
وکی لیکس نے بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کے کئی مسودات شائع کیے جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح امریکہ نے ایک نیا عالمی اقتصادی اور قانونی بلاک بنانے کی کوشش کی جو معاہدوں کے زریعے امریکہ سے منسلک ملٹی نیشنل کمپنیوں کو لامحدود طاقت فراہم کرے گا۔
ان لیکس نے بڑے پیمانے پر تنازعہ اور تجارتی معاہدوں کی مخالفت کو جنم دیا، کیونکہ انہوں نے اس حد تک انکشاف کیا کہ یہ معاہدے عوامی مفادات جیسے سستی ادویات تک رسائی، ماحولیاتی تحفظ، اور مالی استحکام پر کارپوریٹ مفادات کو کس حد تک ترجیح دیں گے۔
عالمی رہنما امریکی خفیہ ایجنسی کا ہدف (2016):
وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی قومی سلامتی ایجنسی (NSA) نے امریکی جیو پولیٹیکل مفادات کے لیے عالمی رہنماؤں بالخصوص یورپیوں کو نشانہ بنایا تھا۔
• دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ NSA نے برلن میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے درمیان ایک نجی موسمیاتی تبدیلی کی حکمت عملی میٹنگ میں خفیہ آلات نصب کئے تھے۔
• این ایس اے نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے چیف آف اسٹاف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے رولز ڈویژن کے ڈائریکٹر جوہان ہیومن کو ان کے سوئس فون کے زریعے نشانہ بنایا تاکہ طویل مدتی مداخلت یقینی بنائی جاسکے۔
• مزید برآں، NSA نے حساس اطالوی سفارتی کیبلز کو بھی ہیک کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اٹلی کے وزیر اعظم سلویو برلسکونی سے امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کی درخواست کی۔
NSA نے اس وقت کے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی، مرکل اور برلسکونی کے درمیان ہونے والی ایک اہم نجی ملاقات کی تفصیلات کو بھی جاسوسی کے زریعے حاصل کیا، جس میں برلسکونی کو بتایا گیا تھا کہ اطالوی بینکنگ سسٹم ”کارک کی طرح پاپ“ ہونے یعنی تباہی کے لیے تیار ہے۔
ہلیری کلنٹن کی لیک ای میلز (2016)
وکی لیکس نے امریکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی پرنسمپل کمیٹی ڈی این سی کی ای میلز جاری کیں، جنہیں ہلیری کلنٹن کی صدارتی مہم کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا۔
ان انکشافات نے امریکی سیاسی عمل کی سالمیت اور کلنٹن کی مہم کی شفافیت کے بارے میں اہم تنازعہ اور بحث کو جنم دیا۔
خیال رہے کہ جولین اسانج کے وکیل نے ان کی رہائی کو سچائی کی کامیابی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وکی لیکس اپنا کام جاری رکھے گی۔
یعنی امید ہے کہ دنیا کے سامنے مزید کئی انکشافات آئیں گے۔