روبوٹ اب عدالتی امور انجام دینگے

روبوٹ اب عدالتی امور انجام دینگے

پبلک نیوز: سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو اپنے سامنے پیش کیے گئے دلائل اور دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ دے گا۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران اس کے فیصلے 97 فیصد تک درست پائے گئے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عدالتی معاملات کو حل کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اور اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ملک کی عدالتوں میں اب بھی کروڑوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ لیکن عدالت کا فیصلہ کسی کی زندگی یا موت کا سوال ہے اور ایسی صورت حال میں بہت سمجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ صبر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن پڑوسی ملک چین نے اب مصنوعی ذہانت سے چلنے والا دنیا کا پہلا پراسیکیوٹر تیار کر لیا ہے جو لمحے بھر میں فیصلے دے سکتا ہے.

ڈیلی سٹار کی خبر کے مطابق چینی ٹیک کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مشین دلائل سننے کے بعد 97 فیصد درست فیصلہ دے سکتی ہے۔ اگر واقعی ایسا ممکن ہے تو چین میں آنے والے وقت میں عدالت کی ضرورت کو ختم کیا جا سکتا ہے اور ججوں کا کام اب ایسے سافٹ ویئر کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو اپنے سامنے پیش کیے گئے دلائل اور دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ دے گا۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران اس کے فیصلے 97 فیصد تک درست پائے گئے ہیں۔ اس مشین کو شنگھائی میں قائم کمپنی پڈونگ پیپلز پروکیوریٹوریٹ نے ڈیزائن کیا ہے۔

چینی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ مشین ججوں کی کمی اور عدالتی فیصلوں میں تاخیر کو کم کرے گی۔ اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر اسے عدالتی کارروائی میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ اس مشین میں بڑی مقدار میں ڈیٹا محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے ذریعے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تیاری کے دوران کمپنی نے سال 2015 سے 2020 تک قانونی معاملات کا سہارا لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی، مشین نے بینک فراڈ سے لے کر سٹے بازی اور ڈرائیونگ کے قوانین تک کے معاملات میں درست فیصلے دیے تھے۔

تاہم کمپنی کے دعوؤں کے برعکس اس مشین کو لے کر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ قانونی فیصلے بہت حساس معاملہ ہیں اور اس کے لیے مشینوں کا سہارا لینا مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ فیصلہ سناتے وقت شواہد کے علاوہ بعض اوقات جذبات اور حالات کا بھی جائزہ لینا پڑتا ہے، کیا یہ مشین یہ کام کر پائے گی، عوام کے ذہنوں میں اس پر شک ہے۔

عدالتی فیصلے بہت سوچ سمجھ کر اور تحمل کے ساتھ لیے جاتے ہیں، اسی لیے ان میں بھی کافی وقت لگتا ہے۔ لیکن مشین کے لیے یہ کام مکمل احتساب اور غیر جانبداری کے ساتھ کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ اس کے ساتھ ہی، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کیا اس ٹیکنالوجی کو غلط فیصلوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا یا کمپنی اسے اس کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار کر رہی ہے۔

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔