ویب ڈیسک: اسرائیلی فوج نے حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے پر اپنی پہلی سرکاری رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج ’اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کے مشن میں ناکام رہی ہیں۔‘
حماس کے اس ہی حملے کے ردِعمل میں اسرائیل نے غزہ میں ایک طویل جنگ کا آغاز کیا تھا جو 15 ماہ جاری رہنے کے بعد گذشتہ مہینے طے پانے والے جنگ بندی کے ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوئی ہے۔
19 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی ان ناکامیوں کا ذکر ہے جن کے سبب 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں نے 251 شہریوں کو یرغمال بنایا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج نے غزہ کی طرف سے اسرائیل کو درپیش سکیورٹی خطرات کو ترجیح نہیں دی اور یہ کہ اُن کی پہلی ترجیح ایران اور حزب اللہ تھی۔
اسرائیلی فوج کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ کے لیے اُن کی پالیسی ’ تضادات پر مبنی تھی اور یہ کہ حماس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس (تنظیم) کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’کنفلکٹ مینجمنٹ‘ کی راہ اپنائی اور یہ تصور کر لیا کہ حماس ’باقاعدہ جنگ شروع کرنے میں نہ تو دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی تیاری کر رہی ہے۔‘
اسرائیلی فوج کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے کچھ ماہ پہلے ملٹری انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ نے خطے کی صورتحال کے حوالے سے نئی رپورٹ مرتب کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حماس کا منصوبہ صرف ایک سوچ نہیں ہے بلکہ ’آپریشنل ٹریننگ پر مبنی ایک مستند منصوبہ ہے۔‘
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسرائیلی فوج نے اپنے دشمن کے دنیا کو دیکھنے کے نظریے، کلچر، مذہب، زبان اور تاریخ کو سمجھنے میں کوتاہی برتی۔اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ھرزی ہلیوی نے پیر کو یہ رپورٹ اپنے کمانڈرز کو پیش کی اور کہا کہ وہ ان تمام ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ھرزی ہلیوی گذشتہ مہینے ہی حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر چکے ہیں اور انھوں نے اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔