(ویب ڈیسک ) سپریم کورٹ کے مستعفی جج جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ استعفیٰ دینے کے باوجود جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف ہونے والی کاروائی پر اپنا آئینی و قانونی حق واضح کرنا چاہتا ہوں، 3 اپریل 2024 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو میری مبینہ آڈیو سامنے آنے کے بعد کاروائی شروع کرنے کے لیے خطوط لکھے، جوڈیشل کونسل میں ابھی میرے خلاف شکایات پر کاروائی نہیں ہوئی تھی کہ مذکورہ دونوں ججز نے مجھے رسپانڈنٹ جج کہہ کر مخاطب کرنا شروع کر دیا۔
لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ میں نے 19 اپریل 2023 کو خط کے ذریعے جواب دینے پر مجبور ہوا کہ دونوں ججز نے میرے خلاف اپنے تعصب کا اظہار کیا، جوڈیشل کونسل کے ممبر جسٹس منصور علی شاہ بھی 23 فروری 2023 کو ایک کیس کی سماعت کے دوران اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ جوڈیشل کونسل میں شکایات دائر ہونے سے پہلے کا تھا جس میں میرے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
سابق جج نے خط میں کہا کہ اب اسی ممبر جج کا جوڈیشل کونسل میں بیٹھ کر میرے خلاف کاروائی کرنا میرے شفاف ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی ہے، یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جوڈیشل کونسل آئین، قانون اور طے شدہ ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے،سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ابتدائی انکوائری کے لئے معاملہ جسٹس سردار طارق مسعود کو بھیجا۔
جسٹس (ر) مظاہر علی نقوی نے خط میں کہا کہ جسٹس سردار طارق مسعود جو پہلے فوری کاروائی کا کہہ چکے تھے انہوں نے معاملہ 3 ماہ 27 دن تک روکے رکھا تاکہ جوڈیشل کونسل کی تشکیل تبدیل ہو جائے، جوڈیشل کونسل کے چیئرمین اور ممبر کی تبدیلی کا انتظار کرنے کا مقصد میرے خلاف سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کے تحت کاروائی آگے بڑھانا تھا،27 اکتوبر 2023 کو جوڈیشل کونسل نے 3:2 کی اکثریت سے مجھے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، جوڈیشل کونسل کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے دو ججز نے الزامات کی مزید چھان بین کے لیے وقت مانگا لیکن ان کی درخواست رد کر دی گئی، یہ سب کچھ مجھے اپنی وضاحت کرنے کا موقع فراہم کیے بغیر، اور دائر کی گئی شکایات کے مواد پر غور کیے بغیر کیا گیا۔
خط میں یہ بھی کہا گیا کہ میں نے 4 مارچ 2020 کو ہونے والے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے میٹنگ منٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے متعدد خطوط لکھے لیکن تفصیلات فراہم نہ کی گئیں، مجھے یقین ہے کہ یہ تفصیلات میرے خلاف چیئرمین جوڈیشل کونسل کا تعصب ظاہر کرنے کے لیے ضروری تھیں، اگر مذکورہ تفصیلات فراہم کی جاتی تو واضح ہو جاتا کہ چیئرمین جوڈیشل کونسل میرے خلاف کاروائی آگے چلانے اہل نہیں، جوڈیشل کونسل نے میرے کسی خط کا جواب نہ دیا، میں نے اپنے ابتدائی جواب میں کونسل کی کاروائی کے قانونی، آئینی اور دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا لیکن کونسل کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔