طالبان کے ذمہ دار نہیں اور نہ ہی ان کے ترجمان ہیں

طالبان کے ذمہ دار نہیں اور نہ ہی ان کے ترجمان ہیں
اسلام آباد ( پبلک نیوز ) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسترد کیا اور کشمیر سے ان کی ریاست کا حق چھین لیا، 1948 میں دو قرار دادوں کے ذریعے کشمیریوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا بھارت کا، اس لئے کشمیری عوام نے اس حق کے حصول کیلئے جدوجہد شروع کی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کشمیریوں کے حق کے حصول کیلئے ان کی مدد کی لیکن پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی یہ خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی، اس کے بعد پاکستان نےبھارت کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دئیے۔جب تک انڈیا کشمیر کی خصوصی حیثیت ؒبحال نہیں کرتا ، ہم بھارت کے ساتھ تین ملکی مذاکرات کا آغاز نہیں کر سکتے، کہ جس میں افغانستان بھی شامل ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں افغانستان گیا ہوں، میرے اشرف غنی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہمارے باہمی تعلقات بہت اچھے تھے لیکن افغان رہنماؤں کے حالیہ بیانات جن میں انہوں نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغانستان کے حالات کا ذمہ دار ہے ۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان نے طالبان کو پہلے امریکہ اور بعد میں طالبان حکومت سے مذاکرات پر راضی کرنے کیلئے محنت اور کوشش کی ، کسی اور ملک نے اتنی کوشش نہیں کی اور اس کی تصدیق زلمے خلیل زاد نے بھی کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور اسے بھارت کی طرف سے فروغ ملا ہے کہ پاکستان کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کرتی ہے، میری حکومت کی خارجہ پالیسی 25 سال سے میری پارٹی کے منشور کی حصہ ہے، میرا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، میری حکومت کا تین سالوں میں وہی موقف رہا ہے جو میں 15 سالوں سے کہہ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو پاکستان آرمی کی مکمل حمایت حاصل ہے ، میں ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہوں، پاک فوج نے بھارت کیساتھ امن سے متعلق میرے تمام اقدامات کی حمایت کی ہے، اس وقت بھارت کو آر ایس ایس نظریات کی حامی جماعت کنٹرول کر رہی ہے، اس کا مظاہرہ آپ نے کشمیر میں اور بھارت کے دیگر علاقوں میں دیکھا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آپ دیکھیں کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے، گاؤ ماتا کے پیروکار مسلمانوں کے گلیوں میں مار رہے ہیں اور ان پر کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوتی، ہندوتوا اور آر ایس ایس نظریات کے حامی تمام اقلیتیوں خصوصی مسلمانوں اور عیسائیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور یہی چیزیں بھارت کیساتھ امن میں رکاوٹیں ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ پاک فوج میری حکومت کے ہر اقدام کی حمایت کرتی ہے، ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ، افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں بھی ہے، ہمارے مستقبل کی تمام اقتصادی حکمت عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن سے منسلک ہے، اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خانہ جنگی جاری رہتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں پر بھی پڑیں گے، ہمیں خدشہ ہے کہ خانہ جنگی پاکستان منتقل ہو گی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جو طالبان افغانستان میں کر رہے ہیں اس کا ہم سے کیا تعلق ؟آپ کو طالبان سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اس کے ذمہ دار ہم نہیں اور نہ ہم طالبان کے ترجمان ہیں۔ آپ کے پاس دو راستے ہیں ، بیس سال سے افغانستان میں فوجی حل کے ذریعے امن لانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ناکام ہو گیا ، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ امریکی حمایت کے ساتھ فوجی حل کی تلاش جاری رکھیں ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ طالبان کو آپ کی حکومت کا حصہ نہیں ہونا چاہئے ۔ دوسرا حل یہ ہے کہ طالبان اور حکومت مل کر مشترکہ حکومت بنائیں، یہی واحد حل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تقریبا تیس سال افغان مہاجرین مقیم ہیں، ان میں زیادہ تمام پشتونوں کی ہے اور وہ تمام یا ان کی اکثریت طالبان کے ہمدرد ہیں، جبکہ 25 سے 30 ہزار افراد روزانہ افغانستان جاتے اور آتے ہیں، پاکستان مسلسل اصرار کر رہا ہے کہ یہ افغان مہاجرین افغانستان واپس چلے جائیں، جب تیس لاکھ افغان مہاجرین یہاں مقیم ہیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چند سو لوگ افغانستان میں جنگ کیلئے گئے ہیں اور پھر ان کی لاشیں واپس پاکستان لائی گئیں تو آپ اس کیلئے پاکستان کو کیسے مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سے افغانستان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے افغان صدر کو بھی وہی باتیں بتائیں جو آج آپ کو بتا رہا ہوں، ہم نے انہیں بتایا کہ ہم مشترکہ جائزہ لیں گے کہ جہاں سے لوگ سرحد پار کرتے ہیں آپ بتائیں ہم وہاں کارروائی کریں گے، اگر آدھے ا فغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے تو وہ پاکستان آکر کیا کریں گے، انہوں نے پاکستان میں طالبان کے خاندانوں کے حوالے سے بات کی تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان کے خاندانوں کو جیل میں ڈال دے، پاکستان ان کے خاندانوں کے ساتھ کیا کر سکتا ہے، اگر کچھ طالبان رہنماؤں کے خاندان یہاں آباد ہیں تو ہم صرف ان پر اثر و رسوخ ڈال سکتے ہیں، انہیں امریکیوں سے مذاکرات پر مجبور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ ہم پاکستان میں طالبان کے خاندانوں کیخلاف فوجی کارروائی کریں، ہم مزید فوجی کارروائی نہیں کریں گے، ہم کسی اور کی جنگ لڑ رہے تھے، اب پاکستان میں اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی فوجی کارروائی نہیں ہو گی، لیکن فوجی کارروائی کے علاوہ ہم پوری کوشش کریں گے، وہ جس طرح کا دباؤ چاہتے ہیں وہ ہم طالبان پر ڈالیں گے۔ وزیر اعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے پاس اسلام آباد میں سیف سٹی کیمرے موجود ہیں ان کی مدد سے ہمارے پاس تفصیلات ہیں جس ٹیکسی میں افغان سفیر کی بیٹی نے سفر کیا، ہم نے ان لوگوں سے تفتیش کی، بدقسمتی سے ہماری معلومات اور سفیر کی بیٹی کے موقف میں ہم آہنگی نہیں، سفیر کی بیٹی کے مطابق انہیں ٹیکسی میں ڈال کر اغوا کیا گیا اور تشدد کیا گیا جبکہ کیمرے کی فوٹیج کے مطابق وہ خود ٹیکسی میں آرام سے بیٹھی ہے، بدقسمتی سے افغان سفیر اور ان کی بیٹی واپس چلے گئے اس لئے اب ہمارے پاس تفتیش کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان سے ایک ٹیم آرہی ہے اور ہم انہیں تمام معلومات فراہم کریں گےتاکہ وہ واپس جا کر افغان سفیر کی بیٹی سے تفتیش کر سکے، ہم نے کئی بار افغان حکومت کو کہا ہے کہ وہ ہمیں بتا دیں کہ کوئٹہ اور پشاور میں طالبان کہاں مقیم ہیں اور ان کی شوریٰ کہاں سے کام کرتی ہے، ہم یہ تب سے سنتے آرہے جب امریکی افواج کارروائیاں کر رہی تھی، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کر رہی تھی، تو انہیں کوئٹہ شوریٰ اور دوسری چیزیں کیوں نظر نہیں آئیں۔ انہوں نے طالبان کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب طالبان مہاجر کیمپوں میں ملتے ہیں جہاں پر لاکھوں لوگ موجود ہیں تو پاکستان کیلئے یہ اندازہ لگانا آسان نہیں کہ کون کہاں سے آرہا ہے اور کہاں جا رہا ہے، میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور جدید مشینری سے لیس ڈیڑھ لاکھ نیٹو افواج کی افغانستان میں ناکامی سے پاکستان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جب امریکہ ویتنام میں ناکام ہوا تھا تب بھی اس نے کمبوڈیا پر الزام لگا کر بم گرائے، ہمیں ایک موقع پر بتایا گیا کہ طالبان کے اہم ٹھکانے شمالی وزیرستان میں ہیں ، ہم پر دباؤ ڈالا گیا کہ ہم شمالی وزیرستان میں کارروائی کریں ۔ آخر کار چار پانچ سال بعد پاکستان نے شمالی وزیرستان میں کارروائی کی کچھ پاکستانی فوجی شہید ہوئے اور تمام علاقہ کو کلئیر کیا گیا ، یہ سب 2014 میں ہوا لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑا اور نیٹو افغانستان میں جنگ نہ جیت سکی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امریکہ کو اس وقت طالبان سے بات چیت کرنی چاہئے تھی جب افغانستان میں ان کی پوزیشن مضبوط تھی ، اب جب انخلا کی تاریخ دیدی گئی اور چند ہزار فوجی افغانستان میں رہ گئے وہ تو کیسے طالبان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ سمجھوتہ کریں گے، اب آدھا افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے تو انہیں پاکستان کی مدد کی کیا ضرورت ہے ۔