سپریم کورٹ میں الیکشن ملتوی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اندرونی معاملے پر ریمارکس کورٹ رولز سے متعلق تھے ، میرے ریمارکس کو میڈیا میں غلط رنگ دے کر پیش کیا گیا ہے،ایک ایک حرف جو میں نے لکھا ہے اس پر قائم ہوں ، میں نے انتظامی اختیارات کے معاملے کو اندرونی معاملہ قرار دیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بتایا کہ ہم نے ازخود نوٹس اور درخواستیں 4-3 کی شرح سے مسترد کیں تا،جب کورٹ آرڈر جاری نہیں ہوا تو الیکشن کمیشن نے تاریخ کیسے دی؟اپنے اختلافی فیصلے کے ایک ایک لفظ پر قائم ہوں، ہم نے جو تجاویز فیصلے میں دیں چیف جسٹس سے اس بارے درخواست کریں گے، ہمارا فیصلہ آرڈر آف دی کورٹ ہے، چار ججز نے درخواستیں مسترد کی تھیں، جب حکم ہی نہیں تھا تو کیس یہ کیسے چل سکتا ہے، شاید میری غلطی ہے کہ گزشتہ روز میں وضاحت نہیں کر سکا۔ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہا ہم اس کیس کو آگے لے جاناچاہتے ہیں، چیف جسٹس کی فاروق ایچ نائیک کو ہدایت عدالت کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دی جائے، پہلے اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ فیصلہ چار تین کا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ اگر آپ مجھے سننا نہیں چاہتے تو آپ کی مرضی میں دلائل نہیں دیتا، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جگہ جو وکیل پہلے دلائل دے رہا تھا اس نے دلائل دینے دیں، سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادردلائل دے کر روانہ ہوگئے۔