عدالت نےٹیلی کام کمپنیز کو سرویلینس کیلئےفون کال ، ڈیٹا کےاستعمال سےروک دیا

عدالت نےٹیلی کام کمپنیز کو سرویلینس کیلئےفون کال ، ڈیٹا کےاستعمال سےروک دیا
کیپشن: عدالت نےٹیلی کام کمپنیز کو سرویلینس کیلئےفون کال ، ڈیٹا کےاستعمال سےروک دیا

ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹیلی کام کمپنیز کو سرویلینس کے لئے فون کال،ڈیٹا تک رسائی اور اس کے استعمال سے روک دیا ،جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ  اگر کمپنیز نے یہ اجازت دی تو ان کے خلاف کرمنل کارروائی ہو گی۔

تفصیلات کے مطابق آڈیو لیکس کیس،بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے دونوں درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔

جسٹس بابر ستار نے پی ٹی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ پی ٹی اے نے جواب جمع نہیں کروایا ؟۔

وکیل پی ٹی اے نے کہا کہ چھٹی کے باعث ہم اپنا جواب داخل نہیں کرواسکے۔

جسٹس بابر ستار  نے ریمارکس دیئےکہ یہ بتایا جائے کہ شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت کون ریکارڈ کرتا ہے؟۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 54 کے تحت پی ٹی اے کو اختیار ہے کہ وہ کالز ریکارڈ کرسکتا ہے۔

عدالت  نے ریمارکس دیئے کہ کس قانون کے تحت آپ کالز ریکارڈ کر رہے ہیں؟زبانی کلامی نہ بتائیں باضابطہ طور پر بتائیں،آپ بتائیں آپ نے کس کو اجازت دے رکھی ہے،کس نے اتھارٹی دی ہوئی ہے کہ لوگوں کی کالز ریکارڈ کی جائیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ مجھے تھوڑا وقت دے دیں میری استدعا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کتنا وقت چاہیے کب درخواست دائر ہوئیں ہیں 2023 میں درخواستیں آئیں ہیں،آپ کو نہیں پتہ تھا کہ آج کیس لگا ہوا ہے،ایک سال سے یہ پٹیشنز زیر سماعت ہیں۔اگر وفاقی حکومت عدالت میں جھوٹ بولے گی تو بات کیسے آگے بڑھے گی،وزیراعظم آفس سمیت دیگر اداروں کی جانب سے رپورٹس جمع کرائی جا چکی ہیں،رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو لیگل انٹرسیپشن کی اجازت نہیں دی گئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ریمارکس دیئے کہ وہ جواب پٹیشنر کی آڈیو لیکس کی حد تک تھا۔

جسٹس بابرستار نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی،اگر آپ اب اس موقف سے پیچھے ہٹیں گے تو اس کے نتائج ہوں گے،قانون کہتا ہے کہ وفاقی حکومت اجازت دے سکتی ہے مگر آپ کے مطابق اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ٹیلی گراف ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ غیر قانونی سرویلنس ایک جرم ہےجس کی قانون میں سزا موجود ہے،جب وفاقی حکومت نے جواب جمع کروایا تو عدالت نے اسے سنجیدہ لیا، پی ٹی اے کہہ رہا ہے کہ ہمیں کوئی اجازت نہیں دے رہا۔سرویلینس کو اتھورائزڈ اگر کیا گیا ہے تو بتائیں کہاں موجود ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ اس حوالے سے اگر رولز نہیں بنے ہوئے تو بننے چاہئیں۔

جسٹس بابرستار نے ریمارکس دیئے کہ کون بنائے گا رولز کس کے ماتحت بنیں گے رولز؟ ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور دیگر گریڈ 20 کے افسر کو نوٹیفائی کریں گے،یہ بتائیں کہ اداروں نے نوٹیفائی کر رکھا ہے اس حوالے سے؟۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے ریمارکس دیئے کہ میں یہ بات پوچھ کر بتا سکتا ہوں۔

جسٹس بابر ستار  نے ریمارکس دیئے کہ انٹیلی جنس افسر کی طرف سے درخواست دی جائے گی،تیسرا مرحلہ حکومتی وزیر کی جانب سے سپورٹنگ مٹیریل دیکھ کر اجازت دینا ہے،اس قانون میں بھی پرائیویسی کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ ریویو کمیٹی ہونی چاہیے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 11 سال سے قانون تو موجود ہے ریویو کمیٹی موجود نہیں،ریویو کمیٹی کیوں موجود نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پوچھ کر بتاؤں گا۔میں کچھ چیزیں مزید بتا دیتا ہوں انٹیلیجنس کے لوگ بھی یہاں بیٹھے ہیں۔

 جسٹس بابر ستار نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کوئی بات نہیں اینٹلی جنس کے لوگوں سے شرمائیں نہیں۔انٹیلیجنس کے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں،کیا کبھی کسی خفیہ ریکارڈنگ کیلئے اِس قانون کے تحت آج تک عدالت سے اجازت مانگی گئی؟قانون کے تحت ہر 6 ماہ بعد کسی کی ایسی خفیہ ریکارڈنگ کے اجازت نامے پر نظر ثانی کی جائے گی۔

جسٹس بابر ستار  نے مزید ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی ایسی نظر ثانی کمیٹی آج تک بنی؟عدالتی اجازت کے بغیر فون ریکارڈنگ اور فون ریکارڈنگ کی فراہمی بھی قابلِ سزا ہے،کیا پی ٹی اے کے لائسنس کی شرائط میں یہ چیزیں شامل ہیں یا پی ٹی اے نے اس حوالے سے کوئی پالیسی دی ہے؟۔

جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اس قانون کو پچھلے ایک سال میں فالو کیا گیا ہے یا نہیں؟۔بتائیں کہ غیر قانونی ٹیلی فون ریکارڈنگ پر کیا ایکشن لیا گیا؟آپ نے کیا تحقیقات کیں کہ سوشل میڈیا پر آڈیو لیکس کیسے وائرل ہوئیں؟ سوشل میڈیا پر کوئی چیز اپلوڈ ہو تو آئی پی ایڈریس سے ٹریک کر سکتی ہے،ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کو کہا کہ ٹریک کر کے بتائیں تو انہوں نے کہا کہ ان کی صلاحیت نہیں۔

جسٹس بابر ستار  نے ریمارکس دیئے کہ پھر تو یہ اداروں کی ناکامی ہوئی،ایف آئی اور اور پولیس کا کیا کام ہے؟ اس معاملے میں ابھی تک ایف آئی آرز درج کیوں نہیں کی گئیں؟ایک ملک میں اگر کرائم ہوا ہے تو آپ انتظار کریں گے کہ کوئی آ کر شکایت کرے تو انوسٹی گیٹ کریں۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے کہا کہ  سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو خط لکھا ہے اور جواب کا انتظار ہے۔

جسٹس بابر ستار  نے ریمارکس دیئے کہ اگر جواب مزید 10 سال نہیں آئے گا تو آپ کیا کریں گے؟۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے کہا کہ اس معاملے کی انکوائری چل رہی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ  چیف جسٹس کی سرویلنس بھی ہوئی تھی جس پر جواب سپریم کورٹ میں داخل ہوئے،آپ اس متعلق بھی جواب دیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کس قانون کے تحت کیں؟

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی حکومت سے ہدایات لینے اور عدالتی سوالوں کے جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

جسٹس بابر ستار  نے ریمارکس دیئے کہ 2015  میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی نے سپریم کورٹ میں داخل کرائیں، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹوں میں خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی گفتگو کے اعداد و شمار دیے گئے تھے، یہ رپورٹ 2013 کے فیئر ٹرائل ایکٹ کے آنے کے بعد کی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاق سے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی گفتگو کے اعدادوشمار کا ریکارڈر بھی طلب کر لیا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر ٹیلی کام کمپنیز کا ایکوئپمنٹ غیر قانونی سرویلنس کے لیے استعمال ہوا تو ان پر اس کی ذمہ داری عائد ہو گی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹیلی کام کمپنیز کو سرویلینس کے لئے فون کال ، ڈیٹا کے استعمال سے روک دیا۔

Watch Live Public News