اولمپک چیمپئن اب اولمپکس کھیلنے کے قابل بھی نہیں؟ قومی کھیل ہاکی کے زوال کی کہانی

اولمپک چیمپئن اب اولمپکس کھیلنے کے قابل بھی نہیں؟ قومی کھیل ہاکی کے زوال کی کہانی
کیپشن: اولمپک چیمپیئن اب اولمپکس کھیلنے کے قابل بھی نہیں؟ قومی کھیل ہاکی کے زوال کی کہانی

ویب ڈیسک: ( شکیل خٹک) پاکستان کا آخری سانسیں لیتا قومی کھیل ہاکی ایک زمانے میں پاکستان کی پہچان تھا۔ ہاکی ٹیم کسی بھی ایونٹ میں جاتی تو جیت کا سہرا یقینی ہوتا۔ مگر وہی کھیل اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ 

قومی ٹیم اول تو کسی میگا ایونٹ میں کوالیفائی نہیں کرتی اور اگر کر بھی لے تو شکست  مقدر بن جاتی ہے۔ اولپمکس ایک ایسا ایونٹ تھا جہاں قومی ٹیم جاتی تو میڈل یقینی ہوتا تھا۔ سال 1992 میں  بارسلونا میں ہونےوالے اولمپک گیمز میں پاکستان نے آخری مرتبہ ہاکی میں برونز میڈل جیتا۔ تب سے لے کر اب تک میڈل کی امید لئے پاکستان کی 25 کروڑ عوام کے میڈل کی امید کا دیا روشن نہ  ہو سکا۔ میڈل کیا پاکستان تو مسلسل تیسری اولمپک گیمز میں کوالیفائی ہی نہیں کرسکا۔ 

رواں سال ہونے والے سلطان اذلان شاہ  کپ قومی ٹیم نے کچھ حد تک بہتر کھیل پیش کیا تو ہر طرف ہاکی کے گن گائے جانے لگے مگر یہ ایسی جیت تھی جس نے امید کا دیا روشن  کرنے کی جانب  ایک قدم ضرور بڑھایا۔ اولمپک میں مسلسل کوالیفائی نہ کرنے پر پاکستان  کے سابق اولمپیئنز کے پاس بھی افسوس کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ 

پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور اولمپیئن طاہر زمان نے کہاکہ اولپمک میں کوالیفائی نہ کرنے کا دکھ بھی ہے اور تکلیف بھی ہے۔ لگتا ہے کہ ہم شرمندگی کا شکار ہیں کہ اب تک تین اولمپک گیمزہوئی ہیں جس میں پاکستان کوالیفائی تک نہیں کرسکا ہے۔ پاکستان ہاکی  کی ناکامی کی وجہ بیان کرتے ہوئے طاہر خان نے کہاکہ جب سے پاکستان نے پرو ہاکی لیگ میں شرکت چھوڑی ہے تب سے ہاکی ٹیم  کا ڈاؤن فال شروع ہوا ہے۔ 

کہیں بھی کسی پلان پر عملدرآمد نظر نہیں آتا، سسٹم میں تسلسل نہیں کوچز تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ 6 مہینے یا سال میں دوسرا کوچ آجاتاہے۔ کوچ کی تبدیلی سے کھلاڑیوں کو بھی مشکلات ہوتی ہیں۔ 

ڈومیسٹک ہاکی پر بات کرتے ہوئے طاہر زمان نے کہا کہ یہاں کوئی ایک پیٹرن نہیں جس پر عمل کیا جارہا ہو، کبھی ایک پیٹرن پر نیشنل چیمپیئن شپ ہورہی ہوتی ہے۔ اگلے سال وہی پیٹرن تبدیل کر دیا جاتاہے جس کی وجہ سے کھلاڑی ایڈجسٹ نہیں کرپاتے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بس اس ٹیلنٹ کوبہتر طریقے سے پالش کرنے کی ضرورت ہے۔ کوچز کو ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔

آخری بارسن  2012  کےاولمپک میں  شرکت کرنے والی ہاکی ٹیم  کے  رکن ریحان بٹ     جو سابق کپتان بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اب پاکستان ہاکی ٹیم کی   اولمپک کے لئے کوالیفائی نہ  کرنے پر دکھ اور افسوس کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ 

ریحان بٹ  نے کہا کہ  کوالیفائی نہ کرنے پر دکھ اور افسوس تو ہوتا ہے مگر اب اس لئے افسوس نہیں ہے کہ  جو  انسان اپنی پہلی غلطی سے نہیں سیکھتا  اور تیسری بار بھی ویسا ہی رہتا ہے تو پھر اس پر دکھ نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہاں پر کوئی ہاکی کو ٹھیک  نہیں کرنا چاہتاہے۔ اگر کسی کو ہاکی کی ٹینشن  ہوتی تو جب پاکستان پہلی بار اولمپک سے باہر ہوا تھا تب ہی چیزیں ٹھیک ہونا شروع ہوجاتیں۔ 

ریحان بٹ نے پڑوسی ملک انڈیا کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ وہ صرف 2008 کے اولمپک سے باہر ہوئے تو انہوں نے بھرپور کام کیا اور اسی وجہ سے ان کے پاس اولمپک کا برانز میڈل ہے۔ ریحان بٹ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جب یہاں کوئی ہاکی کو ٹھیک ہی نہیں کرنا چاہتا ہے تو ہم کیوں روئیں۔ جیسے چل رہا ہے تو چلنے دیں۔ ویسے بھی اولمپک میں کوالیفائی کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں  ہے پاکستان ہاکی ٹیم کو بڑے آرام سے کوالیفائی کرا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے  بندے  ایماندار چاہئیں۔ ایسے نہیں ہوسکتا یہ فیڈریشن والے صرف ٹورز کریں۔ 

ہاکی کےساتھ جڑے سابق اولمپیئنز کے سوال پر ریحان بٹ نے کہاکہ کچھ اولمپیئنز کی وجہ سے سب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا۔  یہی کچھ اولمپئنز ہیں جو پچھلے 20 سال سے ہاکی کے ساتھ جڑے اور چمٹے ہوئے ہیں لیکن وہ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے پتہ نہیں اس سیٹ میں کیا ہے؟ جو بھی ہے چاہے وہ سابق اولمپیئنز ہیں یا پاکستان کا عام شہری، وہ اب ہاکی کے کھیل سے مایوس دکھائی دے رہا ہے۔ 

باتیں اور دعوے تو فیڈریشنز کی جانب سے بھی بہت ہوئی ہیں اور ہو بھی رہی ہیں مگر اُن باتوں پرعمل آج تک نہ ہوسکا ہے اور جو حالات ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید آگے بھی ہاکی کا مستقبل  تاریک ہی ہے۔

Watch Live Public News

اسپورٹس رپورٹر

 محمد شکیل خان ایک نوجوان اسپورٹس رپورٹر ہیں جو نہ صرف فیلڈ میں متحرک ہیں بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے اسپورٹس ایونٹس اور خصوصا کرکٹ کے حوالے سے اپنے قارئین کو باخبر رکھا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔